مزاح کی سیدھی سادھی تعریف تو یہی بنتی ہے کہ اپنی کسی انوکھی نرالی بات، حرکت، اشارے، استعارے سے کسی کو خوش کر دینا۔ اپنے منفرد انداز یا الفاظ سے کسی کے دل کی کلی کھلا دینا۔ نئی بات، جھات یا گھات سے کسی کو اندر سے نہال کر دینا، اپنے مخاطبین و مصاحبین کو لب و لہجے کی وساطت سے مسرت بہم پہنچانا۔ تصویر کا دوسرا رُخ دکھا کے کسی کے اداس ہونٹوں پہ اچانک مسکراہٹ بکھیر دینا۔یہ بھی یاد رہے کہ مزاح، تخلیقی عمل یا تجربے کا وہ تمہیدی، تولیدی، تقلیدی، تہذیبی یا تسکینی پڑاؤ ہے، جہاں لفظ لفظ چُننا، مصرع مصرع جڑنا اور جملہ جملہ جَننا پڑتا ہے۔ قادرِ مطلق نے ہر جاندار کو پانچ حِصوں (سامعہ، باصرہ، لامسہ، ذائقہ، شامہ) سے نوازا لیکن حضرتِ انسان کی دستارِ اشرفیت میں مشروط طور پر سرخاب کے تین پَر مزید لگائے، جنھیں چھٹی حِس، حسِ جمال اور حِسِ مزاح کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو انھی تین حِسوں یا زینوں کی مدد سے قدم قدم چلتا آدمیت کی پگڈنڈی سے انسانیت کے مرغزاروں کی جانب مراجعت کر سکتا ہے۔ انسانی نفسیات کے ماہر میرزا غالب کے تجزیے کے مطابق یہ آدم زاد ابھی تک بہ ظاہر یہ آسان سا سفر طے کرنے میں بھی ناکام ہے۔ پوری دنیا کا دستور یہ ہے کہ لوگ خوشیوں سے جھولیاں بھر بھر کے اس انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب نیا سال آئے اور احباب کے ساتھ ان کو بانٹا اور دوبالا کیا جائے لیکن وطنِ عزیز کا المیہ یہ ہے کہ یہاں گزرنے والا ہر سال نئے زخم، نئے کچوکے، نئے گھاؤ دے کے رخصت ہوتا ہے۔2022 ء پہ ایک سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو اس کا وجود سیاست، مہنگائی ماحولیاتی آلودگی، قدرتی آفات اور سب سے بڑھ کے سیاسی، مذہبی، عدلی، انتظامی مسیحاؤں کی بد عملی، بد زبانی، بے حِسی اور ڈھٹائی کے زخموں سے چُور چُور ہے۔ رہی سہی کسر دسمبر کے نصف آخر میں ٹوٹ کے پڑنے والی شدید سردی نے نکال دی۔ نئے سال کا آغاز دیکھ کے جی میں آیا ہے کہ آج روایتی دکھڑے رونے کی بجائے گزرے دنوں کی آفات، مکافات، حادثات سے بچ جانیوالے کچھ لمحات جو کہیں چلتے پھرتے یا بیٹھے بٹھائے، طنزیہ مزاحیہ قطعات اور تحریفات کی شکل میں ڈھل گئے ہیں، آپکی خدمت میں پیش کر دیے جائیں: سیاسی وعدے جانِ من مَیں تیری خاطر تارے توڑ کے لا سکتا ہوں اِک دو دس کی بات نہیں مَیں سارے توڑ کے لا سکتا ہوں گر کوئی راہ میں حائل ہوا تو نائن الیون لگ سکتی ہے امریکا کے سارے محل منارے توڑ کے لا سکتا ہوں ٹاک شوز اَول ہونا چاہیے، کچھ فَول ہونا چاہیے بدتمیزی کے لیے ماحول ہونا چاہیے آگ لفظوں سے لگائی جا تو سکتی ہے مگر آپ کا لہجہ ذرا پٹرول ہونا چاہیے اقربا پروری ’’تُو بھی گریجویٹ ہے، مَیں بھی گریجویٹ‘‘ تُو بھی پرائیویٹ ہے، مَیں بھی پرائیویٹ دفتر میں تیرے واسطے خالی پڑی ہے سیٹ تُو بھی اکاموڈیٹ ہو، مَیں بھی اکاموڈیٹ ہنس کی چال جُمعے کو ہیں آن ڈیوٹی چھٹی کریں اتوار کی انگریزی میں بنتی ہیں پالیسیاں سرکار کی دوہرا ثواب گھر میں ہوں تو بیگم جی کی خدمت فرض ہمارا ہے دفتر میں ہم کیوں نہ مانیں ساری باتیں افسر کی بکرا عید جو آ جائے تو ڈبل ثواب کماتے ہیں مُٹھی چانپی بیگم کی اور رانیں چانپیں افسر کی المیہ مٹیاروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے ہم بھی بالغ ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے اب سسرال میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا اک سالی تھی اس کا رشتہ آیا لگتا ہے جدید اقبالیات اِک صدی پہلے کہا تھا قوم سے اقبال نے ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ رات مجھ کو خواب میں وہ آپ ہی فرما گئے نیک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے شدید اقبالیات کبھی اقبال کو موقف بہت مضبوط ہوتا تھا ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ مگر لاہور کی آلودگی اب ہم سے کہتی ہے ذرا کم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی دہائی، دہائی یہ ساری سیاست آبائی آبائی ہے ذہنوں میں ان کے کمائی کمائی یہ نادار لوگوں کے بیمار لیڈر ہے ہر طرف صورت وبائی وبائی صحافت یہ کالم نگاری ، یہ خبروں کی دنیا ہے لفظی صحافت کی دل کش حرافہ ہے ان کا عقیدہ جو ہر دم منافع تو سچا ہے لوگوں کا پھر یہ قیافہ موازنہ انڈر پاس ، نہ راؤنڈ اباؤٹ اوور ہیڈ برج وی کوئی نئیں اوہدے گھر تے برفاں عاشق تیرے کول فرج وی کوئی نئیں نمونیا کُجھ اُنج وی ساہواں اوکھیاں سن کُجھ گل وچ دمے دا طوق وی سی کُجھ موسم وی برفیلا سی کُجھ سانوں ٹھرن دا شوق وی سی شاہ اور پھاہ پاویں کا لا شاہ وی ہووے شاہ تے آخر شاہ ہُندا اے حد نئیں ہو گئی؟ دل دی نُکرے آ کے بہہ گئی، حد نئیں ہو گئی سب شرافت رکھی رہ گئی، حد نئیں ہو گئی دل دی دھڑکن تیز ہوئی تے اُڈ پُڈ جانی ہَولی جئی میرے کن وچ کہہ گئی، حد نئیں ہو گئی ٭٭٭٭٭