اب ملک کے مسائل کا حل صرف انقلاب میں ہے۔ 31 مئی 2014 ء کو یہ بیان تھا پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کا جو اپنے کزن چودھری پرویز الٰہی ، بھتیجے مونس الٰہی اور سینئر قائدین طارق بشیر چیمہ ، راجہ بشارت ،خالد رانجھا، کامل علی آغا اور حلیم عادل شیخ کی معیت میں مشرقی لندن کے علاقہ کے ایک گھر میں ڈاکٹر طاہر القادری سے میٹنگ کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان مسلم لیگ نے 8 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں عوام کی فلاح و بہبود کا 10 نکاتی انقلابی ایجنڈا بھی شامل تھا۔ اس اعلامیہ کا آخری اور 8 واں نکتہ یہ تھا کہ ’’پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان عوامی تحریک نے درج بالا حکومتی و انتظامی ڈیوولیشن پلان اور دس نکاتی عوامی انقلابی ایجنڈے پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے ملک کی محب وطن جماعتوں اور طبقات کو جمع کرنے اور ملک گیر عوامی انقلابی تحریک کا آغاز کرنے پر مکمل اتفاق کیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے جولائی میں وطن واپسی کا اعلان کیا ہوا تھا، چودھری برداران کے اصرار پر انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اب جون میں ہی پاکستان واپس پہنچ رہے ہیں۔ اگلے دن ڈاکٹر صاحب سنٹرل لندن میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے بھی ایک ملاقات کرتے ہیں جس کو خان صاحب کی خواہش پر خفیہ رکھا جاتا ہے لیکن حکومت کے خلاف مل کر اگست 2014 ء میں لانگ مارچ پر اتفاق رائے ہوجاتا ہے۔ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صاحب اپنی وطن واپسی کے لئے 23 جون کی تاریخ مقرر کرتے ہو ئے اعلان کرتے ہیں کہ اسلام آباد پہنچ کر وہاں سے براستہ جی ٹی روڈ لاہور جائیں گے۔ چند دنوں میں ہونے والی یہ سب پیش رفت شریف برادران کے لئے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے۔وہ عوامی تحریک کی اسٹریٹ پاور سے اچھی طرح پہلے ہی آگاہ تھے۔ 23 دسمبر 2012 ء مینار پاکستان کا اجتماع ،جنوری 2013 ء کا لانگ مارچ اور 11 مئی 2014 ء کو بیک وقت 60 شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی تمام رپورٹیں ان کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔ اب تحریک انصاف کے ساتھ ملکر حکومت مخالف تحریک کا خیال ہی ان کی نیندیں اڑانے کے لئے کافی تھا۔ اوپر سے چودھری برادران کا بھاری بھرکم وفد کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو ملنے سے ان کو یقین ہوجاتا ہے اس حکومت مخالف تحریک کو اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا وہ فیصلہ کرتے ہیں اس تحریک کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری کو پاکستان آنے سے روکا جائے۔ شریف برادران کو ایک عرصے تک ڈاکٹر صاحب کی بہت قربت حاصل رہی۔ جس طرح عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ وہ مغرب کو بہت اچھے انداز میں جانتے ہیں ویسے ہی شریف خاندان ڈاکٹر صاحب کو جاننے کا دعویدار ہے۔ لہٰذا فیصلہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی وطن واپسی سے پہلے ہی کچھ ایسا کیا جائے کہ وہ وطن واپس نہ آئیں۔ اور اس فیصلے کو عملی شکل دینے کے لئے 17 جون کی نصف شب ان کے گھر اور مرکز پر ریڈ کیا جاتا ہے۔یہ حفاظتی بیریئر ہٹانے کا آپریشن نہ تھا، ایک جنگ کا پہلا معرکہ بھی تھا۔ رات بھر حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن صبح اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا کہتے ہیں کہ اس آپریشن کو ہر حال میں منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ کیونکہ آپریش کو نامکمل چھوڑ کر پسپائی کا مطلب عوامی تحریک کی فتح ہوتی۔ دوسری طرف کینیڈا سے ڈاکٹر طاہر القادری کا فون پرلاہور اپنے گھر موجود دونوں صاحبزادگان سے مسلسل رابطہ تھا جو لمحہ لمحہ کی رپورٹ ان کو دے رہے تھے۔وہ بذریعہ فون مسلسل ٹی وی چینلز پر انٹرویو دے کر اس اقدام کو ایک کھلی دہشت گردی قرار دے رہے تھے اور اس کو اپنے انقلابی کارکنان کے لئے راہ انقلاب کا پہلا امتحان قرار کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ دن گیارہ بجے حکومت نے فیصلہ کیا اب واپسی کا کوئی راستہ ممکن نہیں رہا۔ آپریشن کو ناکام چھوڑنے کا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ 23 جون کو جب ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد پہنچیں، عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر صاحب لاہور آنے کے بجائے ایئرپورٹ سے ہی پارلیمنٹ کا رخ کر لیں۔ چودھری برادران تو ان کا استقبال ایئرپورٹ پر کرنے کے بعد ان کے ساتھ ہو ہی جائیں گے راستہ میں بنی گا لہ سے عمران خان بھی قائدین کے ٹرک پر سوار ہو نے کا موقع ہاتھ سے شائد نہ جانے دیں ۔ لہٰذا وزیراعلی کا پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ اور وزیر اعظم کا پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد مشترکہ حتمی سگنل دیتے ہیں۔ رانا ثنا یہ سگنل ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار تک پہنچاتے ہیں۔ ماڈل ٹائون لاہور میں سیدھی فائرنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ 100 سے زائد لوگ گولیوں سے چھلنی ہوجاتے ہیں۔ بہت سو کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ وہ انقلابی پلان جس پر چودھری برادران اور ڈاکٹر صاحب میں 31 مئی کو لندن میں اتفاق ہوا تھا اور جس کی توثیق اگلے دن عمران خان صاحب نے بھی کی تھی اس کے پہلے معرکے میں 14 لوگ جان کا نذرانہ پیش کر کے جام شہادت نوش کر لیتے ہیں۔ 23 جون 2014 کو ڈاکٹر صاحب کی وطن واپس کے بعدان کا بیان جاری ہوتا ہے ہمارے شہدا ئ،شہدائے انقلاب ہیں اور ہمارا قصاص انقلاب ہوگا۔ پھر 14 اگست 2014 ء کو انقلاب مارچ اور اس کے بعد تاریخی دھرنے ہوتے ہیں۔ انقلاب مارچ کے لئے آنے والوں پر پھر تشدد ہوتا ہے۔ (جاری)