معاملہ ختم ہوجانا چاہئے تھا لیکن بات آگے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے، بڑا فیصلہ بھی اس پر مٹی نہیں ڈال سکا، سیاسی بادو باراں اور جھکڑ نے فی الوقت سامنے کے منظر دھندلا ئے ہوئے ہیںلیکن کب تک ؟ گردتھمے گی، منظر واضح ہوں گے تو تب کیا ہوگا؟ اس سوال کو یہیں چھوڑ کرذرا میرے ساتھ آئیے گا۔دیکھیں تاریخ میں محفوظ یہ بھی ایک منظر ہے ـاس دراز قامت شخص کو دیکھئے گا،وہ اپنی بیوی کے پاس پہنچتا ہے اسکے پیشانی پر فکر و تردد کی سلوٹیں دکھائی دے رہی ہیں ،چہرے سے لگ رہاہے کہ وہ کسی الجھن میں ہے ،سمجھدار رفیقہ ء حیات دیکھتے ہی بھانپ چکی ہے کہ کوئی بات تو ہے لیکن اس سے پہلے کہ وہ کریدتی اس شخص نے خود ہی بتا نا شروع کر دیا ۔ ’’یہ خوشبو کا تحفہ آیا ہے سفوف کی شکل میں ہے اسے تقسیم کرنا ہے‘‘ ’’کردیتی ہوں اس میں کیا مشکل ہے ‘‘بیوی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ وہ تو ٹھیک ہے آپ شہر کی تمام خواتین میں اسے تقسیم کر دو گی لیکن یہ بتاؤ تمہارا حصہ کیا ہوگا ؟‘‘ ’’ہم ۔۔۔تو الجھن اس بات کی ہے ‘‘ اطاعت گزار بیوی مسکرادی، وہ اپنے منصف مزاج شوہر کی طبیعت سے واقف تھی، اس نے جواب دیا، جو سب عورتوں کا حصہ ہو گا ،میں بھی اتنا ہی لوں گی کم نہ زیادہ۔ بیوی نے اپنے تئیںمعاملہ حل کردیا تھالیکن اس شخص کی پیشانی پر پڑی شکنیں کم نہ ہوئیں، کمرے میں خاموشی چھا ئی ہوئی ہے، بیوی منتظر ہے کہ وہ کچھ کہے اور پھر اس کی آواز سکوت لپیٹتی ہے’’ وہ تو ٹھیک ہے مگر تقسیم کے دوران وہ خوشبو جو تمہارے ہاتھوں میںلگے گی اسکا کیا حساب ہوگا، اس لئے جب خوشبو تقسیم کرو گی تو اپنا حصہ کم رکھنا‘‘۔ یہ ایک اور منظر دیکھئے۔ وہی دراز قامت شخص اپنے لوگوں سے مخاطب ہے، خطبہ دے رہا ہے اسکے جسم پر دو یمنی چادریں ہیں ،اچانک سامنے بیٹھے ہوئے مجمعے میں سے ایک شخص کھڑا ہوجاتا ہے، کہتا ہے واللہ ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے،اس مداخلت پر سب ہی حیران ہو گئے۔ خطاب کرنے والا چپ تو ہوگیا ،لیکن اسکا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ اس مداخلت کی وجہ جلد از جلد جاننا چاہ رہا ہے ،اس نے دریافت کیا’’ کیوںایسا کیا ہواہے ؟‘‘ جواب میںاس شخص نے بھرے مجمعے میں اس سے احتساب کا مطالبہ کر دیا ،اس سے منی ٹریل مانگ لی کہا ’’پہلے یہ بتائیے کہ مالِ غنیمت میں جو یمنی چادریں آئی ہیں، ان میں سے جب ہر ایک کے حصے میں ایک چادر ہی آئی ہے ،تو آپ کے جسم پر دو چادریں کہاں سے آئیں ؟سوال غیر معمولی جرات کا مظہرتھا لیکن جس سے کیا جارہا تھا، وہ بھی کوئی عام شخص نہ تھا ،وہ ان کا باظرف حاکم تھا ،سوال کرنے والا حاکم وقت کا احتساب چاہتا تھا ،سرعام پوچھے گئے ،سوال پر اس شخص کو غصہ آیا نہ اس کی پیشانی پر شکنیں پڑیں، اس نے یہ بھی نہ کہا کہ سوال کرنے کا یہ کون سا انداز اور طریقہ ہے اورتم کون سے کوئی چیئرمین نیب ہو بلکہ اس نے اسی وقت منی ٹریل تھما دی، اپنے بیٹے کو آواز دی جس نے گواہی دی کہ میرے والد کو بھی ایک ہی چادر ملی تھی دوسری چادر میری ہے، جو انہوں نے مجھ سے مانگ لی تھی،اس پر سوال اٹھانے والے نے کہا ’’ہاں! اب فرمائیے۔ ہم اب سنیں گے بھی اور اطاعت بھی کریں گے‘‘۔ کیا اب یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ دراز قامت شخص بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس مربع میل کا حاکم ،مراد رسول حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ،حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت میں مشک ،خوشبوئیں اور اسی طرح کی نفیس اشیاء کہیں سے آتیں تو وہ انہیں اپنی اہلیہ حضرت عاتکہؓ کے پاس رکھوا دیتے، وہ انہیں فروخت کرکے رقم بیت المال میں جمع کرادیتی تھیں، ایک بار عطر کی خریدار ایک عورت خاتون اول کے پاس آئی اور اس نے خوشبو کی کچھ مقدار کا سودا کیاخوشبو تولتے ہوئے وہ حضرت عاتکہؓ کی انگلیوں پر بھی لگی، تول کے دوران ہی خاتون اول کی انگلیوں پر کوئی میٹھی چیز لگ گئی، انہوں نے بے ساختہ انگلیاں منہ میں لے کر چاٹ لیں اور پھر انگلیوں کودوپٹے سے پونچھ لیا، اسی اثناء میں سا ڑھے بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم گھر میں داخل ہوااور بیوی کے آنچل کو خوشبو دار پا کر ٹھٹک گیا، بیوی سے پوچھا یہ خوشبو کیسی ؟ بیوی نے بتایا کہ خوشبو تول رہی تھی کہ انگلیوں پر کوئی میٹھی چیز لگ گئی ،میں نے انگلیاں چاٹ کر دوپٹے سے صاف کی تھیں ،شائداسی سے دوپٹے کوخوشبو لگ گئی ،یہ سن کر عمر فاروقؓ نے کہا کہ تم یہ کہوناں کہ بیت المال کی خوشبوؤں اور کھاجوں کے مزے لئے جارہے ہیں ،یہ کہہ کر عمر فاروقؓ نے بیوی کے دوپٹے پر پانی ڈالنا شروع کر دیاا ور جب اس سے بھی اطمینا ن نہ ہوا،تو دوپٹہ زمین سے رگڑنے لگے تاکہ وہ مکمل طور پر خوشبو سے صاف ہو جائے ۔ اب تاریخ کی عینک اتار کر حال میں آجائیں ہم انہی کے نام لینے والوں میں سے ہیں،اپنے بچوں کے نام فخر اور عقیدت سے ابوبکر، عمر،علی ،عثمان اور صحابہ کرامؓ کے نام پر رکھتے ہیں خلفائے راشدینؓ کو دور نبوت کے بعد سب سے قیمتی اور قابل تقلید جانتے ہیں لیکن افسوس کہ بس جاننا ہی کافی سمجھتے ہیں آج ہما را بڑا مسئلہ کرپشن ،اقربا ء پروری اور سفارش کلچر ہے، اسی کرپشن نے آج ہمیں یہ دن دکھائے ہیں کہ ہمارے ہوائی اڈے اور شاہراہیں تک گروی ہیں،اس بیماری کا علاج بے رحمی سے احتساب کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب میں جرائم کی کم ترین شرح میں اس جلاد کی چمکتی تلوار کا بڑا کردار ہے ،جو نماز جمعہ کے بعد سرعام قاتل کا سرتن سے جدا کردیتی ہے لیکن یہ علاج کیسے ہو کہ جنہوں نے اس ناسور کو کاٹ پھینکنا ہے ،ان ہی کے ہاتھوں میں رعشہ ہے کیا کیا جائے عدلیہ کا حال یہ ہے اب مقدمے ہوتے اور جیتے جاتے ہیںکہ ہم سے پوچھ گچھ نہ ہو ،جائیداد املاک کے بارے میں سوال نہ ہو‘ عدل کی تاریخ میں میں اس سے بڑا سانحہ کیا ہوا ہوگا!