میڈیا پر سانحہ بلدیہ ٹاؤن گارمنٹس فیکٹری کراچی کا ذکر دوبارہ شروع ہوا ہے جو کہ در اصل مقتولین کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں ۔ سندھ حکومت ایم کیوایم کی بھتہ خوری اور دہشت گردی بیان کر رہی ہے جبکہ ایم کیو ایم والے عزیر بلوچ کی بدمعاشی کے تذکرے کر رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی نے آج تک یہ جاننے کی کوشش کی کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں مارے جانے والے کون تھے ؟ ان کا کس علاقے سے تعلق تھا ؟ اور یہ بھی کہ بے درد قاتلوں کو کتنی سزا ملی اور کیا قاتلوں نے مقتولین کے ورثہ کو خون بہا ادا کیا ؟ ان تمام باتوں کا جواب نفی میں ہے ۔ ورثا کے زخموں کو کریدا جا رہا ہے۔ مرکز اور سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی تھی ، ایم کیو ایم کے سرپرست اعلیٰ پرویز مشرف حکومت چھوڑ چکے تھے سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سانحہ بلدیہ میں شہید ہونے والے مقتولین کو کتنا انصاف دیا؟ المناک واقعے کی تفصیل اس طرح ہے کہ 11 ستمبر 2012ء کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں حب ریور روڈ کے قریب ڈینم فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی جس سے موقع پر 259 مزدور زندہ جل گئے اور پچاس سے زائد زخمی تھے ۔ اس واقعے سے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ، مگر کوئی پیشرفت سامنے نہ آئی ، احتجاج کا سلسلہ مسلسل جاری رہا ایک جے آئی ٹی بنائی گئی ، ڈھائی سال بعد جون 2015 ء میں جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آئی جس کے مطابق ایم کیو ایم کو 20 کروڑ کا بھتہ نہ ملنے کی بنیاد پر فیکٹری کو آگ لگائی گئی ۔ اب مرکز اور وفاق کے درمیان الزام تراشیوں کی جنگ ہو رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ مقتولین کے لواحقین کو انصاف کون دے گا؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہ تھا ، ملک بھر میں صدر فاروق لغاری کے دور میں مزدوروں کی بوری بند لاشیں بھی آتی رہیں ، ان پر لکھا تھا ’’ صدر فاروق لغاری کو تحفہ‘‘ ۔ کراچی میں لینڈ مافیا کی طرف سے جھگی نشینوں کو زندہ جلایا جاتا رہا ۔ یہ المناک حقیقت ہے کہ آتشزدگی کے واقعات نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ۔ جتنے لوگ بھی زندہ جلے سب کے کے سب مائوں کے بیٹے تھے۔ سب کا دکھ اور صدمہ برابر ہے۔ مرنے والے تمام کے تمام نو عمر تھے، ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن کی ایک ماہ بعد شادیاں ہونے والی تھیں، وہ دولہا بننے والے تھے، ان کے سروں پر سہرے سجنے والے تھے، دولہوں کے والدین شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے، ’’پر دیسی دولہوں‘‘ کی بہنیںگھروں میں سہروں کی محفلیں سجائے بیٹھی تھیں، جن گھروں سے شادیانوں کی آوازیں آ رہی تھیں ان گھروں سے بین کی آوازیں سن کر ماسوائے بے حس حکمرانوں کے ، پتھر سے پتھر دل کوئی بھی ایسا انسان نہیں جس کا کلیجہ منہ کو نہ آیا ہو اور جس کے آنسو وسیب کی رود کوہیوں کی طرح نہ بہے ہوں۔ سانحہ پر اراکین اسمبلی اور وزراء کی خاموشی شرمناک تھی اور آج بھی یہ بے حس بنے ہوئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ غریب لوگ کب تک لاشیں اُٹھائیں ؟ زندہ جل جانے والے مزدور ایک کپڑے کی فیکٹری میں کام کرتے تھے، لیکن کپاس تو دیہی علاقے میں پیدا ہوتی ہے کپڑے کے کار خانے وسیب میں کیوں نہیں؟صرف کراچی ، حیدر آباد،فیصل آباداور لاہورکو کار خانوں کا مرکز کیوں بنا دیا گیا ہے ؟مزدور دو وقت کی روٹی کیلئے کراچی جاتے ہیں کیا سرائیکی وسیب میں اناج کی کمی ہے؟یہاں تو اتنا اناج پیدا ہوتا ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں دوسرے ملکوں کی ضروریات بھی یہاں سے پوری ہوتی ہیں،گندم کے سیزن میں دیہی علاقے میں گندم سٹور کرنے کیلئے حکومت کے پاس گودام کم پڑ جاتے ہیں، لاکھوں ٹن کھلے عام پڑی ہے حکومت کی پوری مشینری ناکام ہو جاتی ہے، صرف بار دانہ مہیا نہیں کر سکتی، پنجاب کے اتنے اناج کے با وجود لوگوں کے پیٹ خالی کیوں ہیں؟ دیہی میں غربت اور بے روز گاری کیوں ہے؟ اور دیہی ’’دولہے‘‘ در در کی ٹھوکریں کھانے اور آگ کی خوراک بننے پر کیوںمجبور ہیں؟ان کی زندگیاں سزا کیوںبنا دی گئی ہیں؟ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ملک کا ہر نوجوان جانتا ہے کہ اسے کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور کو اس بات کا علم ہے کہ فیکٹری مالک جو شرٹ بیرون ملک 500روپے میں بیچ رہا ہے میرے کسان کو اس کپاس کی اجرت پانچ روپے بھی نہیںملتی۔ بسکٹ فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور کو اس بات کا بھی علم ہے کہ دو چھٹانک گندم سے تیار ہونیوالا بسکٹ کا پیکٹ کتنے میں فروخت ہوتا ہے؟ با شعور نو جوان یہ بات بھی سمجھتاہے کہ عام آدمی کوپسماندہ کس نے رکھا۔ انہی علاقوں میں ترقی کس نے نہیں ہونے دی؟اور نوجوانی کو اس کا بھی علم ہے کہ انگریز کے وفادار اور پٹھو کون تھے، جاگیر یں منصب اور سجاد گیاں کس صلے میں ملیں؟ کراچی میں اس وقت پچیس سے تیس لاکھ دوسرے شہروں کے لوگ محنت مزدوری کر رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر مزدور ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ ہیں ، جب بھی کراچی سے لاشیں آتی ہیں۔ اپنے ساتھ بہت سے سوالات لاتی ہیں ان میں سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ سب کے پیٹ پالنے والے مزدور کے بیٹے کو دو وقت کی روٹی کیوں میسر نہیں؟اسے تعلیم‘ صحت اور روزگار کے یکساں مواقع کیوں نہیں دیئے جا رہے۔ دولہے کب تک اس دنیا کی دوزخ کا بل بنیں گے اور غریب کب تک لاشیں اُٹھائیں گے؟