کراچی کے علاقے سائٹ میں پلاٹ نمبر 67۔ایف پر کبھی ایک معروف گارمنٹس فیکٹری تھی۔قریبی علاقوں سے مردوں کے ساتھ خواتین بھی باعزت روزگار کی تلاش میں یہاں آتیں۔ کام معقول تھا‘ مناسب رقم بن جاتی۔11ستمبر 2012ء کو شام چھ اور ساڑھے چھ بجے کے درمیان یہاں آگ لگ گئی۔259عورتیں اور مرد کوئلہ ہو گئے 50جھلسے ہوئے افراد زندہ بچ گئے۔فیکٹری سے 3کلو میٹر کے فاصلے پر سائٹ تھانہ اور اتنی ہی دور فائر بریگیڈ سٹیشن ہے۔ دونوں کو پہنچنے میں کتنی دیر لگتی‘ دو طرف سے بڑی سڑکوں پر واقع ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں اور آگ بجھانے میں کوئی دقت بھی نہ تھی۔ پولیس پندرہ منٹ بعد پہنچ گئی۔ کچھ دیر بعد فائر بریگیڈ بھی آ گیا۔ پولیس نے فیکٹری مالکان‘ حصہ داران اور سرکاری محکموں از قسم لیبر ڈیپارٹمنٹ‘بلڈنگ کنٹرول‘ کے الیکٹرک‘ محکمہ ماحولیات سوشل سکیورٹی‘SITEلمیٹڈ‘ سول ڈیفنس وغیرہ کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔ پولیس نے فیکٹری سیل کر کے انتظامیہ کے کئی افراد کو گرفتار کر لیا۔ 20ستمبر کو تفتیشی افسر چودھری ظفر اقبال کی معطلی کے باعث ایس آئی پی جہانزیب کو تفتیش کا کام سونپا گیا۔ اس نے لاشیں ورثا کے حوالے کیں۔ ڈی این اے نمونہ جات لے کر متعلقہ محکموں کو بھیجے۔ اس دوران کچھ این جی اوز نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشنز فائل کیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے جوڈیشل کمشن بنانے کا حکم دیدیا۔ تفتیشی افسر نے اپنا کام مکمل کر کے گرفتار افراد کے خلاف چارج شیٹ جمع کرا دی۔ تفتیش کی بنیاد اس واقعہ کو محض ایک حادثہ قرار دینے پر رکھی گئی تھی۔ جس کا سبب فیکٹری گودام میں شارٹ سرکٹ بتایا گیا۔ مالکان کو چار میں سے تین خارجی راستے بند کرنے اور گیٹ کھولنے کے آرڈر نہ دینے پر ملزم ٹھہرایا گیا۔ ان پر یہ الزام بھی تھا کہ انہوں نے فائر بریگیڈ کو فون نہ کیا۔ جے آئی ٹی نے تحقیقات شروع کیں تو معلوم ہوا گودام میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو چند منٹوںمیں اس قدر آ گ بھڑکا سکتی۔ پنجاب فرانزک لیب نے رپورٹ دی کہ کوئی شارٹ سرکٹ نہ تھا۔ لیب نے واقعہ کو حادثہ قرار دینے کی نفی کی۔ ایک فٹر نے فنشنگ ڈیپارٹمنٹ کے انچارج زبیر اور اس کے چند ساتھیوں کو سیاہ بھرے ہوئے شاپر بیگ 6بجے کے قریب فیکٹری کے گودام کے مختلف حصوں میں پھینکتے دیکھا۔زبیر اور اس کے ساتھیوں نے بعدازاں خود کو کنٹین میں بند کر کے آگے سے بچائو بچائو کا شور مچایا۔ جے آئی ٹی دوبئی‘ متحدہ عرب امارات گئی۔ فیکٹری مالکان ارشد بھیلا اور شاہد بھیلا سے ملی۔ ایم کیو ایم نے ان پر شدید دبائو ڈال رکھا تھا کہ مقدمہ میں کسی پارٹی عہدیدار اور کارکن کا نام نہ آئے۔ مالکان نے ایک دوست شوکت خیام سے رابطہ کیا جو انہیں حیدر آباد کے ایک شخص محمد علی حسن کے پاس لے گیا۔ وہ خود کو رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی کا دوست بتاتا تھا۔ چند ملاقاتوں کے بعد محمد علی حسن نے انہیں بتایا کہ ایم کیو ایم سے معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لئے مالکان کو ہر مرنے والے کے لئے ڈھائی لاکھ اور زخمی کے لئے ایک لاکھ روپے دینا ہوں گے۔ یہ رقم کسی اکائونٹ میں رکھی رہے گی اور بعدمیں ایم کیو ایم پارٹی پلیٹ فارم سے متاثرہ افراد کی مدد کا اعلان کرے گی۔ ابتدائی طور پر 5کروڑ اٹھانوے لاکھ دیدیے گئے۔ رپورٹ میں بینک اکائونٹ کی تفصیل موجود ہے۔ بعد میں مذکورہ رقم بھی یہ کہہ کر ہضم کر لی گئی کہ شیر کے منہ میں گیا نوالہ کب واپس آتا ہے۔ یہ رقم بعد میں ایم کیو ایم کے عہدیداروں اور ان کے رشتے داروں کے اکائونٹس میں ٹرانسفر ہوئی اور لطیف آباد میں ایک جائیداد خریدنے کے لئے ادائیگی ہوئی۔ جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’’فیکٹری میں آتشزدگی ایک منظم‘ طے شدہ دہشت گردانہ کارروائی تھی جو 20کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر عمل میں لائی گئی۔ تفتیش اور تحقیقات میں اثر و رسوخ استعمال ہوا۔‘‘ ایف آئی آر میں بدنیتی اور جھوٹ پکڑا گیا۔جے آئی ٹی نے مندرجہ ذیل افراد کے خلاف تازہ ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ رحمان بھولا(حماد صدیقی کا فرنٹ مین اور سیکٹر انچارج ایم کیو ایم‘ حماد صدیقی ایم کیو ایم کا بھتہ خور‘ زبیر چریا‘ انچارج فنشنگ ڈیپارٹمنٹ فیکٹری اور اس کے چار نامعلوم ساتھی۔ عمر حسن قادری‘ ڈاکٹر عبدالستار‘ علی حسن قادری‘ اورمسماۃ اقبال ادیب خانم۔جے آئی ٹی نے زبیر کی سعودی عرب سے گرفتاری کے لئے ڈی جی امیگریشن کو 2015میں تین خط لکھے۔ سندھ حکومت کی جاری کردہ عزیر بلوچ ‘ سانحہ بلدیہ فیکٹری اور ڈاکٹر نثار مورائی پر بنی جے آئی ٹیز کی رپورٹس میرے سامنے پڑی ہیں‘ ایک بوجھ منہاج القرآن کے 14کارکنوں کی موت پر بنی جے آئی ٹی کا ہے۔ چاروں رپورٹس بتاتی ہیں ریاست اب ماں جیسی نہیں رہی۔ ایک سیٹھ کے لئے ریاست اس کا کاروبار‘ بنک اور کاروباری قوانین ہیں۔ عام شہری کے لئے نظام انصاف اور پولیس ریاست ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹس بتاتی ہیں ریاست اور اس کا سارا نظام ظالموں کی پشت پر کھڑا تھا۔ نہ پولیس تحفظ دے سکی نہ عدالتیں انصاف فراہم کر سکیں۔ جب یہ سانحہ ہوا سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ پولیس صوبائی حکومت کے ماتحت تھی۔ مرکز میں پی پی اور ایم کیو ایم کا اتحاد تھا۔ جب جے آئی ٹی بنی اس وقت سندھ میں پی پی کی حکومت تھی اور مرکز میں امیگریشن جیسے محکموں کی مختار ن لیگ کی حکومت تھی۔ سندھ میں آج بھی پی پی کی حکومت ہے کیا صوبائی حکومت بتانا پسند کرے گی کہ ان تفتیشی پولیس افسران کے خلاف اب تک کیا کارروائی ہوئی جنہوں نے حقائق کومسخ کرنے کی کوشش کی۔ بلدیہ فیکٹری دہشت گردی میں ریاست کہاں کھڑی تھی۔ مزدور جل گئے۔ ان کے گھرانے تباہ ہو گئے لیکن سیاسی مصلحتیں اور حکومتیں بچائی جاتی رہیں۔ اس ستم پر عام آدمی ریاست کو کیسے ماں مان لے؟