انسان روئے زمین پر خدا کی سب سے پیاری مخلوق ہے ۔اپنی اس مخلوق کو ذات باری تعالی نے ابتدائے آفرینش کے دن اتنی شرافت سے نوازا تھا کہ فرشتوں جیسی برگزیدہ مخلوق کو بھی اس کے سامنے سجدہ ریز کروا کر زمین پر اسے اپنا خلیفہ مقررکردیا۔اس کا ناحق قتل تو کجا ، بلکہ اس کی دل آزاری بھی اللہ تعالیٰ کو کسی صورت منظور نہیں۔اسی لئے اللہ نے فرد واحد کے ناحق قتل کو بھی پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے اور قاتل کو ہمیشہ دوزخ میں رہنے کی سزا کی وعید سنائی ہے۔لیکن شومئی قسمت کہ ہمارے گئے گزرے معاشرے میں بہت چھوٹی اور معمولی باتوں پر بھی انسان کی جاں لینا ایک معمول بن چکا ہے ۔اس سماج میں بعض بے چارے انسان تو ایسے مشتعل درندہ نما ظالموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہوتے ۔ چند سال پہلے مردان کے عبدالولی خان یونیورسٹی کا طالبعلم مشال خان کا بے رحمانہ قتل اس نوعیت کے ظلم کی ایک بڑی مثال ہے ۔ مشال خان توہین مذہب کے الزام میں یونیورسٹی کے مشتعل نوجوانوں کے ہاتھوں انسانیت سوز طریقے سے نہ صرف شہید ہوئے تھے بلکہ ان کی لاش کی بے توقیری کی گئی ، اس پر الامان والحفیظ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ دودن پہلے جمعہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹائون میں تین جواںسال پشتون لڑکے لسانیت کے نام پر ایسے ہی بے رحم ظالموں کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ اس دل خراش واقعے کی مذمت کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ کم پڑگئے اور میں نہیں سمجھتاکہ یہاں ایساکیوںہورہاہے؟ہزارہ ٹائون کوئٹہ شہر کے مغرب میں بروری کی پہاڑی علاقے پر واقع ہے جہاں دری زبان بولنے والے ہزارہ قبیلے کے لوگ آباد ہیں ۔ ماضی میں دہشتگرد وں کے مسلسل حملوں کی وجہ سے یہ علاقہ نوگوایریامیں تبدیل کیاگیاتھا جو آج بھی پر امن لوگوں کیلئے تقریبا نوگو ایریا ہے۔جمعہ کی شام خروٹ آباد سے تعلق رکھنے والابلال احمد خان نورزئی اور ان کے دو ساتھی گاڑی کی لین دین کے معاملے میں ہزارہ ٹائون گئے تو وہاں پر انہیں پہلے چندلوگوں نے اور پھرمشتعل ہجوم نے انتہا درجے کی تشدد کا نشانہ بنا ڈالا ۔ان کاجرم یہ بتایاجاتا ہے کہ’’ وہ موبائل فون سے وہاں پرخواتین کی ویڈیو بنا رہے تھے ‘‘۔ اگر الزام کو سچ بھی تسلیم کرلیاجائے تو سوال یہ ہے کہ کیا ویڈیو بنانے(ایسی ویڈیوجس میں مرد خواتین ) کے جرم میں کسی کو جاں سے مارنا،لاش کی بے حرمتی کرنا اور تصاویراتارنا ایک انسا ن اور مسلمان کاکام ہوسکتاہے؟ جہاں تک مذکورہ ویڈیو کا تعلق ہے تو یہاں تک سنا ہے کہ چندسیکنڈکے اس کلپ میں بازارمیں گھومنے والے معمول کی طرح مرد اور خواتین دونوں نظرآتے ہیں۔چلیں ویڈیو بنانے کا جرم ان لڑکوں سے سرزد ہواتھا تو ان سے موبائل فونز چھین کران کو پولیس کے حوالے کرناچاہیے تھا نہ کہ ان کے اوپر تشددکرکے انہیںجاں سے مارنے پر اتر آنا۔تشدد کیا تھی ،قینچیوں،پتھروں، لوہے کے راڈاور چریوں کے ذریعے ان بے چاروں کو اس بے رحمی سے ماراگیاکہ بلال موقع پر شہیدہوگیا اور اس کے دو ساتھیوں کو شدید زخمی کردیاگیا۔ اطلاع ملنے پراگرچہ پولیس جائے وقوعہ پرپہنچ گئی تھی لیکن نوجوانوں کو بچانے کرنے کی بجائے الٹا تشدد کرنے والوں کو بھگانے کا محفوظ راستہ فراہم کردیا- ان بے بس لڑکوں پرایک نہیں کئی نوعیت کاظلم ہوا، پہلا یہ کیا کہ وہاں کے لوگ ایک معمولی ایشو پر ان پر حملہ آور ہوکرانہیں ٹارچر کیا۔ دوسرا ظلم وہاں پر یہ ہوا کہ چند افراد کی بجائے اس کمیونٹی کے سینکڑوں افراد نے باری باری اس تشدد میں حصہ لے لے کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ چوتھا ظلم یہ کہ تشدد کے بعد ان مظلوموں کے جسموں کی بے توقیری بھی کی گئی اور تصاویر اتاریں۔ قارئین کو معلوم ہوناچاہیے کہ کوئٹہ میں کئی دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں آباد ہزارہ برادری کے لوگوں کو کوئٹہ کے پشتونوں اور بلوچوں نے ہر وقت اپنا بھائی اور اپنے لوگ سمجھے ہیں جس کا اعتراف خود اس برادری کے لوگ بھی کرچکے ہیں ۔ماضی میں جب اس برادری کے بیگناہ لوگوں پر انتہا پسندوں کی طرف سے حملے ہورہے تھے تو کوئٹہ ہی کے پشتون اور بلوچ سیاسی جماعتوں کے رہنمااور مذہبی لوگ تھے جو مشکل کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ شانہ کھڑے رہے ۔ اب حالیہ پر انسانیت سوز واقعے کے بعد جابجا یہ سوال یہ پوچھاجارہاہے کہ اس کمیونٹی نے سینکڑوں لوگوں نے چند پشتون لڑکوں پر آخر اپنے غیظ وغضب کی انتہا کیوں کردی؟ کیا سینکڑوں گھرانوں پر مشتمل اس بستی میں مٹھی بھر ایسے سنجیدہ لوگ بھی موجود نہیں تھے جو بر وقت اس مشتعل ہجوم کو روک پاتے میں ؟ ذاتی طور پر مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا کہ اس بربریت میں پوری ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی خاموش تائید شامل تھی ۔ میرا نہیں خیال کہ یہ واقعہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا۔تاہم بطور ایک منظم برادری کے وہاںکے بڑوں ، علما کرام اور سیاسی رہنماووں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنوں لوگوں کو اس طرح کے معمولی ایشو کو بربریت کے ذریعے نمٹانے اور وہ بھی اجتماعی طور پر سے روکے جس سے لسانیت اور علاقائیت کا پیغام ملتا ہو۔سوشل میڈیا پر اس واقعے کی تصاویر دیکھ کر ہر کسی کا دل فگار کرکے آٹھ آٹھ آنسو رلا دیا۔اس واقعے کو بنیاد بنا کر بہت سے لوگ ابھی سے اسے لسانی رنگ بھی دیتے ہیں جبکہ بہت سے عناصر اس کو فرقہ پرستی کی عینک سے دیکھ کر پوری ہزارہ برادری پر تبرا بھیجتے ہیں ۔ہزارہ برادری کے علما کرام اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے دردمندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ اس جرم میں حصہ لینے والوں اور ان کے سہولت کاروں کی نشاندہی کرکے انہیں فوری طور پر حکومت وقت کے حوالے کریں۔ خدانہ کرے ایسا نہ ہو کہ معاملہ مذہبی یا لسانی شکل اختیار کرکے خون خرابے کی طرف بڑھے۔ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ایکٹیویٹس حضرات سے بھی گزارش کرتاہوں کہ لسانیت اور فرقہ واریت پر مبنی پوسٹوں سے احتراز کریں اور ہوشمندی کا ثبوت دیں۔