سانحہ ساہیوال کے ذمہ دار ملزموں پر دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا ہے، سی ٹی ڈی کے پوری ٹاپ مینجمنٹ اور بعض دیگر اہم پولیس افسر بطور سزا معطل یا تبدیل ہوئے ہیں۔یہ بات تو خوش آئند ہے کہ جن لوگوں نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوں فائر کھول کر بے گناہوں کو ہلاک کیا، ان کے خلاف مقدمہ چلے گا۔تحریک انصاف کی حکومت ہلکی سی تھپکی کی مستحق ہوگئی ہے۔(اس مرحلے پر مکمل اطمینان کا اظہار کرنا ضرورت سے زیادہ خوش گمانی ہوگی، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ملزموں کے خلاف کیس کی پیروی کیسے کی جائے گی ، سزا کیا ملے گی)۔اس سانحے کے ذمہ داروں کے لئے اعلان کردہ اقدامات سخت اور جامع ہیں یا نہیں، اس پر بھی مختلف آرا ہوسکتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ان کے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے تھا۔سی ٹی ڈی میں جس اتھارٹی نے وہ گمراہ کن پریس ریلیز تیار ، منظورکر کے بھیجی ، اسے بھی( دھوکہ دہی اور قتل عمد کی واردات پر پردہ ڈالنے کے الزام میں )قانون کی گرفت میں لانا چاہیے ، اگر صرف تبدیل کرنے پر اکتفا کیا ہے تو کافی نہیں۔سی ٹی ڈی اور صوبائی انتظامیہ نے خلیل اور ان کے اہل خانہ کوبے گناہ قرار دیا ہے، تاہم انکے مطابق آپریشن اپنی جگہ درست تھا، کہا جارہا ہے کہ مرحوم ڈرائیور ذیشان مشتبہ دہشت گرد تھا۔ اگلے روز میڈیا کو اِن کیمرہ بریفنگ بھی دی گئی۔ اخبارات میں اس حوالے سے بعض رپورٹس شائع ہوئی ہیں۔میڈیا بریفنگ میں توخاکسار شامل نہیں تھا، مگرکالم لکھنے سے پہلے اس حوالے سے سامنے آنے والی تمام تفصیلات کوا کٹھا کیا ، شرکت کرنے والے بعض سینئرز سے بھی گفتگو ہوئی۔نئے حکومتی انکشافات دلچسپ اور ڈرامائی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ذیشان کا معاملہ کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد میں پولیس مقابلے کے دوران ہلاک ہونے والے داعش کے مبینہ دہشت گردوں سے جا ملتا ہے۔ ایک مشتبہ گاڑ ی کو ٹریس کرنے سے فیصل آباد میں داعش کا ایجنٹ عدیل حفیظ اپنے ساتھی سمیت مارا گیا۔ اس گاڑی کے ساتھ دو تین مواقعوں پر ایک چھوٹی گاڑی بھی دیکھی گئی ، کبھی آگے اور بعض اوقات پیچھے۔اسے ڈھونڈا جا رہا تھا، اس دوران عدیل کے موبائل سے بعض قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔یہ معلوم ہوا کہ اب دہشت گرد عام فون یا واٹس ایپ استعمال نہیں کرتے اور ایک نئی ایپلی کیشن تھریما استعمال کی جاری ہے، جس میں ریکارڈشدہ وائس میسج ایک دوسرے کو بھیجے جاتے ہیں۔ عدیل کے پاس موجود سم کو ٹریس کرتے ہوئے کائونٹر ٹیررازم والے لاہور کے علاقہ چونگی امر سدھو تک جا پہنچے۔ یہاں پرانہیں وہ دوسری مشتبہ چھوٹی گاڑی ایک گلی میں کھڑی مل گئی۔ آبادی گنجان اور موبائل ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ نشاندہی نہ ہوسکی کہ مشتبہ دہشت گرد کس گھر میں مقیم ہے۔احتیاط کے پیش نظر گاڑی کے بارے میںاعلانیہ لوگوں سے پوچھنے سے گریز کیا گیا کہ کہیں دہشت گرد چوکنا ہو کر فرار نہ ہوجائے۔تاہم نگرانی ہوتی رہی۔ واردات والے دن یہ اطلاع ملی کہ مانگا منڈی ٹول پلازہ سے وہی مشتبہ گاڑی کراس کر کے ساہیوال کی طرف جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے مختلف انٹیلی جنس ذرائع سے اطلاعات ملی تھیں کہ دو خود کش حملہ آور چونگی امر سدھو میں مقیم اس مشتبہ داعش کے سہولت کار کے پاس آ چکے ہیں اور جلد ہی کسی بڑی کارروائی کے لئے یہ روانہ ہوجائیں گے۔چونگی امر سدھو سے نگرانی کرنے والوںکو جل دے کر نکل جانے والی اس مشتبہ کار کواسی ممکنہ بڑی دہشت گردی کی واردات سے جوڑا گیا۔سی ٹی ڈی کے آپریشن سکواڈ نے تیزی سے مشتبہ کار کا پیچھا کیا اور یوں اس خونی آپریشن کا آغاز ہوا، جس کا نشانہ کئی بے گناہ لوگ بنے ۔ حکام کے مطابق دو ہی آپشن تھے۔ اس مشتبہ گاڑی کا پیچھا کیا جاتا حتیٰ کہ وہ اپنی منزل مقصود تک جا پہنچتی ۔ خطرہ یہ تھا کہ کسی کو اصل ہدف کا علم نہیں۔ آگے جانے والی پولیس، فوج کی گاڑی، کوئی حساس عمارت یاکہیں کچھ اور۔ امکان تھا کہ ہدف قریب ہو اور پیچھا کرنے والے حملہ آوروں کو کارروائی سے روک ہی نہ سکیں۔ دوسری آپشن یہی تھی کہ دہشت گردوں کو راستے ہی میں آپریشن کر کے روک لیا جائے ۔ اسی آپشن پر عمل کیا گیا اور سی ٹی ڈی سکواڈ نے گاڑی پراچانک فائر کھول کر اپنی دانست میں دہشت گردوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ جب دیکھا کہ معصوم بچے موجود ہیں تو انہیں نکال لیا گیا ۔ یہ ہے وہ موقف جو اعلیٰ سطحی میڈیا بریفنگ میں بیان کیا گیا ، جس کے بارے میں میڈیا رپورٹس شائع آ چکی ہیں ۔حکام کے مطابق سی ٹی ڈی سکواڈ سے دو بڑی غلطیاں ہوئیں، ایک تو انہوں نے جب دیکھا کہ گاڑی میں عورتیں بھی موجود ہیں تو انہیں نئی ہدایات لینی چاہئیں تھیں۔ممکن ہے ایسی صورتحال میں تبدیل شدہ حکمت عملی بنائی جاتی ، جس سے اتنا نقصان نہ ہوتا۔ دوسری غلطی غلط پریس ریلیز جاری کرکے کی۔ جو موقف اپنایا گیا ، وہ جھوٹا ثابت ہوا، گاڑی کے پیچھے موٹرسائیکل سوار نہیں تھے ، جنہوں نے فائرنگ کی اور جو بعد میں فرار ہوگئے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیںملا۔میڈیابریفنگ میں ذیشان کے حوالے سے کچھ ثبوت بھی دکھائے گئے، اس کے موبائل میں موجود دہشت گرد عدیل کے ساتھ تصویر، تھریما پر چیٹ ، بعض ایسی موبائل ویڈیوز جو صرف دہشت گردوں کے ساتھی کے پاس ہوسکتی ہیں۔ میڈیا بریفنگ میں بیان کئے گئے حکام کے موقف پروہاں موجود صحافیوں نے تنقید بھی کی، تیکھے سوالات بھی ہوتے رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خاکسار کے پاس اس پر یقین کرنے ، نہ کرنے کا کوئی جوازموجود نہیں۔ جو باتیں کہی گئیں، وہ سچ ہوسکتی ہیں اوران پر سوال بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔کہانی میں موجود دو تین کمزور کڑیاں ایسی ہیں جو مجھے پریشان کر رہی ہیں۔ذیشان کی عمومی شہرت اچھی ہے، محلے والے اس کی شدت پسند تنظیم سے تعلق کی بات پر یقین نہیں کر رہے۔ ویسے توکئی دہشت گرد ایسے بھی پکڑے جاتے رہے ہیں، جنکے بارے میں ان کے اپنے گھروالوں کو شک نہیں تھا۔ مذہبی شدت پسندی کے معاملے میںایسا ہوسکتا ہے۔ پچھلے سال حیدرآباد کے ایک میڈیکل کالج کی سٹوڈنٹ دہشت گردوں کی ساتھی بن گئی تھی،ملک شام جانے کے لئے وہ گھر سے بھاگ کر دہشت گرد ٹولے کا حصہ بن گئی۔ اس کے ڈاکٹر باپ اور ماں کو ایک گھر میں رہتے اشارہ تک نہ مل سکا۔ مجھے حیرت یہ ہے کہ جب کارٹریس ہوگئی ، تب اس کے مالک (یعنی ذیشان)کی رہائش کے بارے میں پتہ چل جانا چاہیے تھا۔ یہ الیکٹرانک اور ہیومن انٹیلی جنس دونوں کی ناکامی ہے کہ مشتبہ دہشت گرد کے بارے میں اس وقت پتہ چلا جب اس کی چونگی امرسدھو سے نکل کر گاڑی مانگا منڈی کراس کرچکی تھی۔ گاڑی کی نگرانی سخت ہوتی تو معلوم ہوجاتا کہ دہشت گردوں کے بجائے بوریوالہ شادی پر جانے والا ایک گھرانہ اس گاڑی کو کرایہ پر لے کر جا رہا ہے۔ اس پر شدید مایوسی ہوئی کہ ہمارے کائونٹر ٹیررازم والے ایک اہم دہشت گرد کو زندہ گرفتار کر کے مزید راز اور ایجنٹوں کے بارے میں اگلوانے کے بجائے اسے فوری ختم کرنے کا فیصلہ کر کے آئے تھے۔ یہ جواز پیش کیا کہ اگر دہشت گرد نے جیکٹ پہن رکھی ہو تو وہ باہر آ کر پولیس کے لئے خطرہ بن سکتا ہے، ایسے میں جو پہل کر جائے وہی کامیاب ہوتا ہے۔ یہ بات کسی محدود جگہ، کمرے یا جلوس وغیرہ کے حوالے سے تو بالکل درست ہے۔ ہائی وے اور کھلی جگہ پر گاڑی آسانی سے روک کر سواروں کو محفوظ انداز میں غیر مسلح کیا جا سکتا تھا۔ اس کےSOPبنانے کیا مشکل ہیں؟ ان مردوں کو باہر نکل کر زمین پر لیٹنے اور شرٹ اتارنے کا کہا جاتا، معلوم ہوجاتا کہ جیکٹ ہے یا نہیں، اس دوران پولیس والے پچاس ساٹھ گز یا کچھ اور دور رہ کر آسانی سے نظر رکھ سکتے تھے۔ایسا کرنے کے بجائے بغیر وارننگ اڑا دینے کو ترجیح دی گئی۔ ساہیوال آپریشن سے ایک خاص( غیر محتاط قسم کے) جارحانہ مائنڈ سیٹ کی عکاسی ہوتی ہے، جو خوشگوار احساس نہیں۔یہ بھی کہ اس طرح کی بلنڈرز کو محکمانہ طور پربچانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔زندہ بچ جانے والے بچے کی ویڈیو نہ آتی تو آج منظر ہی مختلف ہوتا۔ہم سفید جھوٹ سچ مان چکے ہوتے۔ سوشل میڈیا پرعوامی ویڈیوز اورپبلک پریشر نے ملزم گرفتار کرائے۔ایسا مگر ہر بار ممکن نہیں ۔اس کا بھی امکان ہے کہ آئندہ کوئی گواہی دینے کے قابل ہی نہ رہے۔ہمیں اس پورے سسٹم میں اصلاحات لانی ہوں گی، ایس اوپیز بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے غیر معمولی قربانیاں دے کر دہشت گردوں کی کمر توڑی ہے۔ کئی وارداتوں سے وہ عوام کو روز بچاتے ہیں۔ہر ایک ان مجاہدوں کا ممنون ہے ۔ہمارے جوان ہمارے ہیرو ہیں۔یہ مگر یاد رکھا جائے کہ سانحہ ساہیوال جیسا ایک واقعہ پورے عمل پر سوالیہ نشان بنا دیتا ہے۔لوگ سوچتے ہیں کہ نجانے آج تک ہم کیا کچھ جھوٹ سنتے، مانتے آئے ہیں، چاہے ایسا نہ بھی ہوا ہو۔ ہمیں دہشت گردی کا خاتمہ بھی کرنا ہے اور اپنے سسٹم کو بھی مضبوط، شفاف اور قابل اعتماد بنانا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو سول حکومت کے کرنے کا ہے، عسکری قیادت بھی اس میں یقیناان کی معاون ثابت ہوگی۔ ریاست کو اپنی پوری توجہ اس جانب مرکوز کرنی چاہیے ۔