یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا کاش میں بھی ناصر کاظمی کی طرح کہہ سکتا کہ آج تو بے سبب اداس ہے جی‘ میرا دل جو اداس ہی نہیں بلکہ بجھ سا گیا ہے۔ اس کے پیچھے کئی اسباب ہیں ۔ ہائے ہائے کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں، جب محافظ قاتل بن جائیں اور حکمران مفاد اور خود غرضی کی چادر اوڑھ لیں تو مظلوم کہاں جائے۔ پھر تو ایک ہی در ہے کہ باریابی ہو جائے تو پتھر سے چشمہ پھوٹ پڑے اور مردہ زمین زندہ ہوجائے مگر اس اس کی اپنی منشا ہے اور اپنی مرضی۔ میں ہی نہیں ہر پاکستانی کو ساہیوال سانحہ میں ملوث سی ٹی ڈی کے تمام ملزمان کے بری ہونے پر شدید تکلیف ہوئی اور مایوسی نے انہیں گھیر لیا ہے۔عرصہ بعد آج مجھے نسیم اے سید کا شعر یاد آ گیا: توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا بے ساختہ سرکار ہنسی آ گئی مجھ کو ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ظالموں کے پاس نہ صرف ظلم کا جواز ہوتا ہے بلکہ ظالموں کو بچانے کے بھی ہزار حربے۔ اب ہمیں بتایا جائے گا کہ ساری گواہیاں بیٹھ گئیں۔ کیا یہ بات مذاق سے زیادہ ظلم نہیں کہ جہاں اسلحہ بردار قاتل ہوں وہاں نہتے گواہان یا متعلقان کی کیا جرأت کہ لب کشائی کریں۔ ان کی اپنی مجبوریاں کہ پھر ان کے بچے یتیم اور بے آسرا دربدر پھریں گے۔ مختصر یہ کہ مجرموں کی شناخت نہ ہو سکی۔ غلطی کی معافی کہ میں انہیں مجرم لکھ گیا۔ وہ تو ابھی ملزم تھے۔ مجرم تو ان پر الزام دھرنے والے ہیں۔ایک شخص نے نہیں کافی لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ لکھا کہ لگتا ہے کہ مقتولین کے بچے عمیر اور منیبہ ہی قاتل ہونگے ۔ انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ سزا تو ان بے چارے بچوں کو مل گئی کہ ان کی زندگی پر کتنا بڑا اور گہرا کھائو لگا ہے جو کبھی مندمل نہ ہو سکے گا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ صدمہ کہ وہ کس ملک میں پیدا ہوئے جہاں قاتلوں کو تحفظ مہیا کیا جاتا ہے اور جہاں یتیموں اور بے آسرا بچوں کو انصاف دلانے والا کوئی بھی نہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا: اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے پھراس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے کتنی اذیت ناک بات ہے کہ ملک کے وزیر اعظم قطر سے یہ بیان داغیں کہ وہ پاکستان میں آتے ہی سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو عبرت کا نشان بنا دیں گے بلکہ وہ پولیس کا سارا سٹرکچر ہی تبدیل کر دیں گے۔ لوگ پوچھتے ہی رہ گئے کہ مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ وزیر اعظم ہی کیا اکثر حکومتی لوگ اسی طرح وعدے کرتے ہیں ان کا ایک وزیر بلند بانگ دعوے کر رہا تھا اور کلپ شیئر کرنے والے نے اوپر لکھا تھا! جھوٹ بولنے والی مشین واقعتاً ایسا ہی ہے بعض تو ایسے غلط بیانی کرتے ہیں کہ سننے والے کو شرم آنے لگتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایک جج کہے گا کہ اس نے تو شواہد اور گواہیوں پر فیصلہ کرنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تو کوئی کچھ بھی کر لے اور اس کے بعد اپنے گواہ پیدا ہی نہ ہونے دے اور اگر یوں نہ ہو سکے تو ایک گناہ اور سہی۔ بے بچارگی دیکھیے کہ مقتول کا بھائی جلیل کہہ رہا ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ جلیل کا بیان پڑھ کر تو وہ مجھے ماہر قانون یا ایک بڑا ڈاکومنٹ نظر آیا۔ ایک تصویر میں عمران خاں مقتول کے بچوں کو پیار کرتے دکھائے گئے ہیں بچوں کو پیار نہیں انصاف چاہیے تھا یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ لوگ درد دل سے خالی نہیں ہیں۔ پورا سوشل میڈیا قاتلوں کے بری ہونے پر چیخ اٹھا ہے۔ یہ سراسر انسانیت کا قتل اور اس قتل پر مجرمانہ خاموشی اور پھر ان قاتلوں کی بریت ناقابل فہم ضرور ہے مگر ناقابل یقین ہرگزنہیں کہ یہاں محافظوں کا وطیرہ ہے’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘ ماتم کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے‘‘ ابھی تو لوگ ریمنڈ ڈیوس کو نہیں بھولے کہ وہ کیسے دن دیہاڑے معصوم پاکستانیوں کا شکار کرتا رہا۔ پھر اس کو کس طرح تحفظ دیا گیا کیسے اسے بچانے کی راہیں تراشی گئیں۔’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘چلیے وہ تو لوگوں نے ایک زمینی حقیقت کے تحت آقا ولی نعمت پر ظلم پر آہ بھر لی مگر اس مرتبہ تو اپنے ہی محافظ بروئے کار آئے ہیں جنہوں نے معصوم بچوں کو بے آسرا کر دیا‘ ہاتھ جوڑتے ہوئے معصوم شہریوں پر فائر مارتے رہے۔ پورا نظام بے بس نظر آتا ہے۔ کراچی کا رائو انوار سینکڑوں لوگوں کا قاتل ’’جوان کا بچہ‘‘ نکلا۔ یہ سب کیا ہے؟ شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا جب ظلم بڑھتا ہے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ یہ لاوا بہت دیر تک لوگوں کے سینوں میں ابلتا ہے۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کا اور ان کے بچوں کا یہاں کیا مستقبل ہے۔ کسی کو کچھ خبر نہیں کہ ’’کس گلی میں اس زندگی کی شام ہو جائے‘‘ قتل طاقتور کا حق ٹھہرا ہے، کوئی کمزور انصاف طلب کرنے کی جسارت نہ کرے۔ زبان صرف طاقت کی ہوتی ہے کمزور کا کام ’’یا رونا یا نس جانا‘‘ وہ جتوئی قاتل تو ابھی تک آنکھوں کی پتلیوں پر ہے جو عدالت میں وکٹری کے نشان بناتا ہوا قانون کا منہ چڑاتا رہا۔ مگر مقتولین کے ورثا زیادہ غیر محفوظ ہو جاتے ہیں پھر ان پر احسان کر کے انہیں ملک ہی سے نکال دیا جاتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں مقتول فہیم کی بیوی شمائلہ حقیقت پسند تھی اور اس نے خود کشی کر لی تھی۔ کہ یہاں یہی انصاف ہے۔ آپ ذرا غور تو کریں کہ آپ کا معاشی قتل کتنی خاموشی سے کیا جا رہا ہے اور پھر اس پر ٹیپ کا مصرع کہ ’’گھبرانا نہیں‘‘ مزدور کا بچہ بیمار ہو جائے تو دوائی کے پیسے اس کے پاس نہیں اور مر جائے تو کفن نہیں۔ یہ کربناک سہی مگر حقیقت ہے۔دن بدن حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹرز نرسیں اور استاد احتجاج پر ہیں۔ پتہ سوشل میڈیا پر چل رہا ہے یا پھر جو لوگ ٹریفک بلاک میں پھنس جاتے ہیں ان دنوں یہ بھی پتہ نہیں کہ کس رستے پر آپ کے سامنے کنٹینر آ جائے۔ کیا مکافات عمل ہے۔ یہ تو ناانصافی ہے کہ اپنے ہر غلط کام کا جواز اور دوسرے کے لئے سب بے جواز۔ چون غرض آمد ہنر پوشیدہ شد صد حجاب از دل بسوئے دیدہ شد خیر بات کسی اور طرف نکل گئی مگر موضوع تو عہد موجود کی بے چینی اور عدم تحفظ ہے کہ اس میں سب ذمہ دار برابر کے شریک ہیں’’یہ لوگ مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے‘‘خان صاحب وزیر اعظم ہیں ’’ان کی بلا سے ‘‘ شاید انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی۔ میرا تو دل افسردہ ہے ایک بجھے ہوئے چراغ کی طرح۔ ان معصوم یتیم بچوں کی زندگیاں کہ جن پر موجودہ فیصلے کا اثر تاحیات رہے گا اور انہیں یہ کرب ڈستا رہے گا۔ خود پی ٹی آئی کے نوجوان سخت ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔