سانحہ ساہیوال جس میں میاں شہباز شریف کے دور میں قائم کر دہ کاؤنٹرٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے دن دہاڑے ایک خاندان کو دہشت گرد قرار دے کر سفاکانہ انداز سے پوائنٹ بلینک گولیاں مار کر ہلاک کر دیا البتہ انھوں نے اتنی ’رعایت ‘ضرورکی کہ تین کمسن بچوں کو’’ دہشت گردوں‘‘ کی گاڑی سے نکال دیا ۔جاں بحق ہونے والوں میں خلیل، اس کی اہلیہ نبیلہ ،بیٹی اریبہ اور ڈرائیور ذیشان شامل ہیں۔ پولیس نے اس افسوسناک واقعہ کے محرکات کے بارے میں چار مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا ۔بعض تجزیہ کار اسے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے بھی تشبیہ دیتے ہیں ۔ ایک قدر تو مشترک ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بھی پولیس نے سفاکی سے گولیاں مار کر خواتین سمیت 16افراد کو مار ڈالا تھا ۔ یہاں بھی کچھ اسی قسم کے ظالمانہ طریقے سے دہشت گردی کا صفایا کرنے کے نام پر ایک خاندان کا ہی صفایا کر دیا گیا ۔ اس سانحے کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر ایڈیشنل آئی جی پنجاب کی سربراہی میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ۔سنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ جلد منظر عام پر آ جائے گی تاکہ ملزموں کی نشاندہی ہو سکے۔ابتدائی طور پر سی ٹی ڈی ٹیم کے 16۔ارکان کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے ٹویٹ میں واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور جاں بحق ہونے والوں کے بچوں کے لیے دو کروڑ کی امداد کے ساتھ ان کی کفالت کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن جن بچوں کے سر سے ان کے ماں باپ کا سایہ چھن گیا ان کی تو دنیا تاریک ہو گئی ہے ۔ جے آئی ٹی کے قیام کی بادی النظر میں کوئی تُک سمجھ نہیں آتی ۔ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے پہلے ہی فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ گاڑی میں بیٹھے خلیل، اس کی اہلیہ نبیلہ اور بیٹی اریبہ’ کو لیٹرل ڈمیج‘ میں ہلاک ہوئے ۔ یہ سانحہ پہلے ادوار میں ہونے والے ’پولیس مقابلوں ‘کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے ۔ ’’پولیس مقابلے ‘‘ تو چھٹے ہوئے غنڈوں ،بدمعاشوں اور قاتلوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کیے جاتے تھے جنہیں انسانی حقوق کے علمبردار ہمیشہ ماورائے عدالت قتل اور غیر قانونی قرار دیتے تھے ۔ہفتے کو ہونے والا ساہیوال سانحہ تو باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ کے زمرے میں آتا ہے ۔ اب تک کی اطلاعا ت کے مطابق گاڑی میں سوار افراد مسلح نہیں تھے اگرچہ یہ کہا گیا کہ گاڑی چلانے والا ذیشان خطرناک دہشت گرد تھا اور داعش کے لیے کام کر رہا تھا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق یہ آپریشن سو فیصد انٹیلی جنس پر مبنی ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات کی بنیاد پر کیا گیا ۔ذیشان داعش کے خطرناک نیٹ ورک کیساتھ کام کر رہا تھا جو ملتان میں آئی ایس آئی کے افسروںکے قتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آبا د میں دو پو لیس افسروں کے قتل میں ملوث ہے ۔ان دہشت گردوں نے ملتان میں آئی ایس آئی کے افسروں کے قتل میں ایک سلور رنگ کی ہنڈا سٹی کار استعمال کی تھی ۔ذیشان کے گھر میں بڑی مقدار میں گولہ بارود موجود تھا لہٰذا وہاں آپریشن کرنا مناسب نہ تھا ۔اگر واقعی خلیل اور اس کے بیوی بچوں کو ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا تو گاڑی کو روکنا اور ’’دہشت گرد‘‘ذیشان کو حراست میں لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے حوالے سے سی ٹی ڈی کو جو بے لگام اختیارات دیئے گئے ہیں لگتا ہے کہ وہ کسی کے سامنے جوابد ہ نہیں ہیں۔ آج کل کے ماحول میں گاڑی یا پبلک ٹرانسپورٹ پر سفرکرنے والوں اور عام شہریوں کے لیے اس قسم کے واقعات شدید عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتے ہیں ۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے پولیس سے خوف کھائیں گے، انھیں ڈپریشن اور پینک اٹیک کی صورتحا ل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کا سانحے میں جاں بحق ہونے والے میاں بیوی اور بیٹی کی ہلاکت کو ’کو لیٹرول ڈمیج ‘قرار دینا انتہائی بے حسی کی غمازی کرتا ہے کیونکہ اس رویئے کو اگرسرکاری طور پر درست قرار دیا جائے گا تو ہر شہری ڈاکوؤں ،چوروں کے علاوہ پولیس سے بھی خوف کھائے گا کہ کیا کسی ناکے پر اس سے کوئی چوک ہو گئی تو بغیر پوچھ گچھ کے ہی اس پر گولی چلا دی جائے گی ؟۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پولیس میں اصلاحات کی جا رہی ہیں لیکن یہ سفاکانہ کلچر شاید پولیس کے رگ رگ میں سرایت کر گیا ہے ۔ اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان میں کہنے کو تو قانون کی حکمرانی ہے لیکن عملی طور پر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون چل رہا ہے ۔ آج کچھ لوگ یقینا حا ل ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو یاد کر رہے ہیں کیونکہ ان کے دور میں ایسا واقعہ ہوتا تو اب تک انھوں نے سوموٹو نوٹس لے لیا ہوتا ۔ملک میںقانون کی حکمرانی ہو اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری ہو تو سوموٹو نوٹس لینے اور جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔لیکن جہاں آوے کا آوا بگڑا ہو اور ریاستی اداروں کی طرف سے تشدد اور معاشرے میں طاقتور لوگ جو اپنے رویوں سے ہمہ وقت قانون کی دھجیاں اڑاتے رہتے ہیں کا راج ہو تو عدم تحفظ کا احساس لا محالہ پیدا ہوتا ہے ، اس صورتحال میں عدالتی نظام کی رجعت قہقری بھی ذمہ دار ہے، عدالتوں سے لوگوں کو انصاف نہیں ملتا ۔عدلیہ کو تو اس حوالے سے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن جہاں وکلا کئی ہفتوں سے ہڑتال کیے بیٹھے ہوں وہاں قانون کی حکمرانی کیونکر ہو گی؟ ۔جسٹس ثاقب نثار نے کئی معاملات پر جو اصولی طور پر ان کے دائر کار میں نہیں آتے تھے ازخود نوٹس لیا لیکن پورے نظام میں ہی خرابیاں ہوں تو سب کچھ ناکافی ہے ۔ اس لیے جسٹس ثاقب نثار پر کچھ لو گ یہ نکتہ چینی کرتے رہے کہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کر لیں پھر سپریم کورٹ سے باہر جایئے گا لیکن ہائی پروفائل کیسز بعض ججوں کی کمزوری بن چکے ہیں۔ انصاف کے نظام کی ٹوٹ پھوٹ کی یہ حالت ہے کہ بعض اندازوںکے مطابق ہزاروں افراد لاپتہ افرادکی فہرست میں شامل ہیں۔ مسنگ پرسنز کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کچھ لوگوں کو بازیاب بھی کرایا ہے۔ ملک میں آج کل یہ بحث بھی چل رہی ہے فوج کی خواہش ہے کہ خصوصی فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع کر دی جا ئے۔یہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ فوجی عدالتیں اس لیے قائم کی جا رہی ہیں کہ مروجہ روایتی عدالتوں کا نظام اتنا گنجلک ہے کہ دہشت گرد سزاسے صاف بچ نکلتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تو سیدھا سادا استدلال اختیارکیا ہے، پہلے بھی فوجی عدالتیں اس لیے قائم کی گئی تھیں کہ عام عدالتوں کا نظام بہتر بنایا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اب اپوزیشن مزید توسیع کے حق میں نہیں ہے، اس کا استدلال ہے کہ حکمرانوں اور عسکری حلقوں کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم نے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے ۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر فوجی عدالتوں کی کیا ضرورت ہے؟ ۔یقینا یہ سب کچھ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی نفی ہے ۔اگر ریاست کے ادارے بھی تشدد پراتر آئیں تو ملک کو انارکی کی طرف جانے سے نہیں روکا جا سکے گا ۔ وزیراعظم عمران خان خود انسانی حقوق کے معاملات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں،وہ قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں میںدہشت گردوں کے علاوہ عام شہریوں کے مارے جانے پر شدید نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں کہ یہ غیر انسانی ہیںاور ان میں کو لیٹرل ڈمیج کو نہیں روکا جاسکتا۔اب وہ اس بارے میں عملی طور پر کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی ہیں اور اس حوالے سے ساہیوال کا افسوسناک واقعہ ان کے لیے ٹیسٹ کیس ہے ۔