شعبہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کی فائرنگ سے ساہیوال میں چار افراد کی ہلاکت نے پوری قوم کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ قوم کے دکھ میں یہ امر اضافہ کر رہا ہے کہ ایسی فورس جسے دہشت گردوں کو قابو کرنے کی اعلیٰ تربیت دی گئی ہے وہ نہتے افراد کو دن دہاڑے معروف شاہراہ کے کنارے مار ڈالتی ہے۔ اس سانحے نے سی ٹی ڈی اہلکاروں کی تربیت‘ ان کی نگرانی اور طریقہ کار کے متعلق سنگین نوعیت کے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مرنے والے لاہور سے شادی میں شرکت کے لئے بوریوالہ جا رہے تھے۔ تاحال ہلاک شدگان کا مجرمانہ ریکارڈ سامنے نہیں آ سکا۔ ڈرائیور کے علاوہ گھر کا سربراہ‘ اس کی بیوی اور چودہ سالہ بیٹی کی موت پر عوام کا شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پولیس اور سی ٹی ڈی اہلکاروں نے جس طرح بار بار بیانات تبدیل کئے اور واقعہ کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی اس کا پردہ زندہ بچ جانے والے معصوم بچوں اور عینی گواہان نے چاک کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے پولیس کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے مکمل تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ہے جس میں آئی ایس آئی‘ ایم آئی اور آئی بی کے نمائندے شامل ہوں گے۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ وزیر داخلہ پنجاب نے دیگر وزراء کے ساتھ پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ مقتولین کی گاڑی دہشت گردوں کے زیراستعمال رہی اور ایک دہشت گرد ذیشان کے ساتھ ان لوگوں کا تعلق رہا ہے تاہم جے آئی ٹی کی رپورٹ کو حتمی تسلیم کیا جائے گا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی ہے۔ معاشی بدحالی کے باوجود قوم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مالی ضروریات پورا کیں۔ اس طویل جنگ کے دوران ہر شعبہ زندگی سے وابستہ افراد نے جان و مال کی قربانیاں پیش کیں۔75ہزار افراد شہید ہوئے جن میں سے نصف کا تعلق فوج‘ رینجرز‘ ایف سی‘ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تھا۔ یہ لوگ قوم کے محسن ہیں اور قوم ان کی قربانیوں کو ہمیشہ احترام دیتی رہے گی۔ پاکستان کے مخصوص حالات کے باعث دہشت گردوں کے خاتمہ کے لئے صرف پولیس اور فوج پر انحصار نہیں کیا گیا بلکہ کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی شکل میں ایک نئی فورس قائم کی گئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ چونکہ امریکی قیادت میں لڑی جا رہی تھی اس لئے اس ضمن میں بننے والی فورسز کی تربیت اور مقاصد امریکی اہداف سے ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس وقت برطانیہ ‘ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ ملائشیا‘ بھارت‘ انڈونیشیا میں انسداد دہشت گردی کے محکمے بھر پور انداز میں کام کر رہے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں انڈونیشیا کا ماڈل مثالی سمجھا جاتا ہے جہاں 2003ء میں بالی بم دھماکوں کے بعد انسداد دہشت گردی سکواڈ تشکیل دیا گیا۔ یہ بھی درست ہے کہ بالی بم دھماکوں کے بعد امریکہ اور آسٹریلیا نے انڈونیشیا کو کئی ارب ڈالر کی امداد دی جس سے انسداد دہشت گردی سکواڈ کی صلاحیت بڑھانے‘ پولیس اصلاحات اور تربیتی امور میں بہتری لائی گئی۔پاکستان نے دہشتگردی کے ہاتھوں انڈونیشیا کی نسبت زیادہ زخم کھائے ہیں مگر ہم غیر ملکی امداد اور قومی وسائل کے بے پناہ استعمال کے باوجود اپنی فورس کو شہریوں کی عزت کرنا اور ایک حقیقی محافظ کے طور پر کردار ادا کرنا نہیں سکھا پائے۔ ساہیوال کے سانحہ کی دستیاب تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کو اس بات کا احساس تک نہ تھا کہ وہ قانونی دائرے سے باہر نکل کر ایک ہنستے بستے خاندان کو قتل کر رہے ہیں۔ مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کار سواروں نے نہ کوئی فائر کیا نہ مزاحمت اسکے باوجود سی ٹی ڈی اہلکار انتہائی اقدام کرنے میں بے باک دکھائی دیئے تو ان کی تربیت پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ ایسی سوچ والے اہلکاروں کو قطعی فیلڈ میںنہیں بھیجا جا سکتا۔ کراچی میں ایس ایس پی رائو انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کی موت ایک انتباہ تھا۔ اس وقت قصور وار کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے والوں کو کہا جا رہا تھا کہ رائو انوار ایک مفید افسر ہے لہٰذا اس کے گناہ یا غلطی کو معاف کر دینا چاہیے۔ یہ مقدمہ ابھی تک عدالت میں ہے۔ بلوچستان سے ملحقہ ایرانی سرحد پر چیچن شہریوں کو خروٹ آباد کے مقام پر مار دیا گیا۔ چیچن غیر ملکی تھے مگر دہشت گرد نہ تھے۔ کوئی مدعی نہ رہا‘ ہمارے اداروں نے بھی اپنی غلطیوں پر نگاہ نہ کی۔ کے پی کے اور قبائلی اضلاع سے ایسی شکایات آتی ہیں تو ریاستی سطح پر ان شکایات کے ازالہ کا نظام فعال نہیں ہوتا۔ یہ صورت حال عوام میں عدم تحفظ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نفرت کی وجہ بن رہی ہے۔ پولیس ہو یا سی ٹی ڈی ان اداروں کی کارروائیوں کی نگرانی کا نظام ضرور ہونا چاہیے۔ ایسی باتیں گردش کرتی رہتی ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کئی معاملات میں کرائے کے قاتل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ خصوصاً پولیس کے حوالے سے ایسی شکایات کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ ساہیوال کا سانحہ جہاں پولیس‘ انٹیلی جنس اور سی ٹی ڈی کی کارکردگی میں خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے وہاں تبدیلی کی دعویدار حکومت سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسی تمام فورسز جن کا عوام سے سابقہ پڑتا ہے ان کی خامیوں کو دور کرنے کا انتظام کرے۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں پولیس نے 14 معصوم لوگ مار دیئے‘ خروف آباد کے مقتولین اور نقیب اللہ محسود کو بھی تاحال انصاف نہیں مل سکا۔تحریک انصاف کی حکومت کے سامنے صرف سانحہ ساہیوال کا سوال نہیں ماضی کے واقعات بھی سوالوں کی شکل میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ اصلاح احوال کا انتظام ظالم کو سزا اور مظلوم کو انصاف فراہم کرنے سے شروع ہو گا۔ اس امتحان میں خدانخواستہ عمران خان ناکام رہے تو حالات اس طرف مڑ سکتے ہیں جہاں ریاست کی سلامتی دائو پر لگ جاتی ہے۔