لاہور (رانا محمد عظیم )سانحہ چونیاں اور ننھی پری زینب کے کیس کا طریقہ کار ایک جیسا رہا سانحہ چونیاں پولیس کی روایتی نااہلی کا ثبوت بن کر سامنے آگیا پولیس،بوگس ٹیمیں بناکرتفتیش کرتی رہی۔اس کیس میں بھی پولیس نے بچوں کے اغوا کی اطلاع ملنے کے باجود اگر مقدمہ درج کیا تو بچوں کو ڈھونڈنے میں ڈی ایس پی سے لیکر ڈی پی او اور ایس ایچ او تک نے کوئی حکمت عملی اور نہ ہی کوئی تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی۔ پولیس کی پراگرس رپورٹ میں بھی جو لکھا گیا اس میں بھی ایسی غلطیاں ہیں کہ کئی ایسے پولیس اہلکاروں کو بھی ٹیموں میں شامل کیا گیا جو اس دن ڈیوٹی پر موجود ہی نہیں تھے ۔ بچوں کی لاشیں سامنے آ نے پر ڈی ایس پی نعیم ورک اور ڈی پی او نے پراگریس رپورٹ میں لکھا گیا کہ فیضان عرف مٹھو 16-2-2019کو ساڑھے پانچ بجے گھر سے بازار گیا اور غائب ہو گیا شام کو پولیس کو اطلاع ملی جس پر پولیس نے فوری طور پردس ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ ان ٹیموں کی ڈیوٹیاں دو قبرستانوں ایک سی سی ٹی وی کیمرہ اور ایک سورس ٹیم بنا کر لگائی گئی ۔ بچوں کے لواحقین اور فیضان اور مٹھو مرحوم کی والدہ کے مطابق بچوں کے اغوا کے بعد ڈی پی او سے لیکر نیچے پولیس تک کوئی بات سننے کیلئے تیار نہیں تھا ۔اسی طرح زینب کے کیس میں بھی پولیس نے ڈمی رپورٹس بنائی تھیں مگر اس واقعہ کے بعد اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ اب ایسا معاملہ کبھی نہیں ہو گا ۔ پولیس کی نا اہلی کی وجہ سے چار معصوم بچوں کی زندگیاں ختم ہو گئیں۔دوسری جانب اہم ادارو ں نے پولیس سے ہٹ کر اسی کیس کے حوالے سے ان خدشات پر بھی تفتیش شروع کر دی کہ آ خر یہ ایسے کربناک واقعات ضلع قصور میں ہی کیو ں ہو رہے ہیں۔اس کی پورنو گرافی کر کے کسی اور ملک میں تو نہیں بھیجی جا رہی اور ایسے واقعات کے بعد وہ گروپ کچھ عرصہ کیلئے سائیڈ پر ہو جاتا ہے اور دوبارہ پھر ایسے واقعات شروع ہو جاتے ہیں کہیں اس میں پولیس اور سیاسی شخصیات تو ملوث نہیں ان تمام پہلوئوں پر بھی اہم ادارے تفتیش کر رہے ہیں ۔