یہ کوئی نئی بات ہے نہ اچھوتی مجھے تواس پر بالکل حیرت نہیں ہوئی بلکہ اگر کسی سمجھ دار بندے کو حیرت ہوئی ہے تو مجھے اسکی حیرت اور سمجھ پر حیرت ہے۔ بھارت نے یہی کچھ کرنا تھا یہ سب نہ ہوتا تو حیرت ہوتی ،اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے میں آپ کو ٹیکسلا کی مٹی سے اٹھنے والے ہندو دانشور چانکیہ کی خارجہ پالیسی کے چھ نکات بتانا چاہتاہوں ، 283قبل مسیح میں پیدا ہونے والاٹیکسلا کا یہ برہمن زادہ بلا کا ذہین فطین شخص تھا،چانکیہوشنو گپت کی دانائی ذہانت اپنی جگہ لیکن اس میں پائی جانے والی کدورت اور حسد اس سے بھی زیادہ تھی اسی لئے وہ کوٹیلہ کے نام سے مشہور ہوگیا یہ برہمن اپنی صلاحیتوں سے اس وقت کے مہاراجہ چندر گپت موریا کے قریب پہنچ گیا اور اتنا قریب ہوا کہ اسکا اتالیق اور وزیر اعظم بھی مقرر ہو گیا ،چانکیہ نے چندر گپت کی سلطنت کو بہت مضبوط کیااور اسے گر کی باتیں بتائیں اس نے بادشاہ سے کہا کہ اپنی خارجہ پالیسی کو سامدھی،وگ واہ،اسان،یان،سمس راہ اوردوائیدی بھاؤکے نقاط پراستوار کرے،سامدھی یعنی آس پاس کی ریاستوں سے مل کراس وقت تک امن قائم کروجب تک طاقت نہیں پکڑ لیتے چانکیہ نے دوسرا نقطہ بتاتے ہوئے کہا کہ سامدھی(امن ) اس وقت تک رہے جب تک ’’وگ واہ‘‘ یعنی جنگ نافذکرنے یا لڑنے کی قوت حاصل نہ ہوجائے جب مسلز مضبوط ہوجائیں تو دشمن کو پچھاڑ نے سے دریغ نہ کرو آسان لفظوں میں آس پاس کی ریاستوں پڑوسیوں کے ساتھ امن و امان قائم رکھو، تیسری گر کی بات ’’اسان ‘‘ یعنی تیل اور تیل کی دھار دیکھوتھاچانکیہ کا سبق تھا کہ اس وقت تک چپ رہو جب تک لڑنے سے کچھ حاصل وصول نہ ہوچانکیہ نے اگلا گر ’’یان ‘‘ کابتایا اور کہا کہ چپکے چپکے جنگ کی مسلسل تیاری جار ی رکھو، اس نے پانچویں پتے کی بات ’’سمس راہ‘‘ یہ بتائی کہ یعنی طاقت ور سے بنا کر رکھو اور اسکی آڑ لئے رہوچانکیہ کی آخری گر کی بات ’’دوائیدھی بھاؤ‘‘ تھی اسکی تشریح چانکیہ نے یوں کی کہ جب دشمن ایک سے زیادہ ہوں تو دشمن کے دشمن سے معاہدہ کرکے اسے کمزور کرنے کی کوشش جاری رکھو ۔ مودی سے پہلے بھی بھارت کی خارجہ پالیسی انہی نقاط پر استوار تھی اورآج بھی ہے یہ نہرو گاندھی ہی تھے جس کے دور میں مکتی باہنی قائم کی گئی اور پھر اندرا گاندھی نے یہ ادھورا مشن آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کو دولخت کیا آج اندرا گاندھی کی جگہ وزیر اعظم بنے بیٹھے نریندر مودی نے بھی سقوط پاکستان کی اس سازش میں حصہ لیااور بنگلہ دیش کے دورے میں بڑے فخر سے مکتی باہنی میں بطور رضاکار شمولیت کا سینہ تان کر ذکر کیا ،پاکستان کے ساتھ بھارت کی چپقلش سمجھ میں آتی ہے قائد اعظم نے ہندوستان کا پورا کیک ہندوؤں کے پاس جانے نہیں دیاتھامجبوراانگریزوں کو کیک پر چھری چلانی پڑی تھی لیکن بیچارے سری لنکا نے کب بھارت کی راہ میں کانٹے بچھائے تھے یا کسی براہمن زادے کا مسا نوچا تھا کہ تامل ٹائیگرز کی شکل میں بھارت نے سری لنکا کو دوزخ بنا دیا ۔۔۔ وہ تو ضیاء الحق صاحب کولمبو کی مدد نہ کرتے اور پاک فضائیہ کے فائیٹر جیٹ بھارت نواز تامل ٹائیگرز کے محفوظ ٹھکانے تباہ نہ کرتے تو سقوط کی کہانی وہاں بھی دوہرائی جاچکی ہوتی ،اسی طرح بھارت کی جارحانہ پالیسیوں سے مالدیپ اورنیپال جیسی بے ضرر ریاستیں بھی محفوظ نہ رہیں بھارت نے انہیں اپنا تابع بناکر ہی چھوڑا اور ان کی ناک میں دم کئے رکھا اس خطے میں لے دے کر ایک پاکستان ہی ایسا ہے جو چانکیہ کے چیلوں کے لئے تر نوالہ ثابت نہ ہوا یہ اللہ کا کرم ہی ہے کہ پاکستان بھارت کے لئے لوہے کا چنے بنا رہاورنہ چانکیہ کے چیلے کب کا اسے ڈکارچکا ہوتے اس کے باوجود ایسا نہیں کہ وہ یہ کوشش ترک کرچکے ہیں نئی دہلی کی ہر صبح پاکستان کو کمزور کرنے کے ارادے سے شروع ہوتی ہے اور ہرشام یہی خواہش لئے گنگا جمنا میں ڈوب جاتی ہے چانکیہ کے چیلے پہلے باز آئے تھے نہ اب پیچھے ہٹے ہیں ۔ چانکیہ کا فلسفہ سامنے رکھا جائے تو ’’انڈین کرانیکلز‘‘ کے ڈرامے پر کسی سادہ لوح کو ہی حیرت ہوسکتی ہے ،یورپی یونین کے ادارے ’’ای یو ڈس انفولیب ‘‘ نے تو بھارت کا کچاچٹا کھول کر ثابت کر دیا ہے کہ چانکیہ کے چیلے سقوط پاکستان کے بعد بھی باز نہیں آئے ’’ہندو توا ‘‘کی خواہش اور ملک گیری کی ہوس انہیں مصروف رکھے ہوئے ہے اس نے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لئے کس طرح انڈین کرانیکلز کے پلیٹ فارم سے جھوٹ سازی کی مشین لگا رکھی تھی ساڑھے سات سو فرضی اداروں ،پینسٹھ ممالک میں دو سو پینسٹھ سے زائد مقامی ویب سائٹس دن رات پاکستان کے خلاف زہر اگل رہی تھیں بھارت پاکستان کے خلاف جھوٹ پر جھوٹ کی اینٹ رکھتا اورجوتوں سمیت آنکھوں میں گھستا چلا گیا ان جعلی ویب سائٹس کا کام مشہور افراد شخصیات کے نام پر جھوٹ گھڑنا تھا،امریکی ماہر قانون لوئس بی سوہن 2006ء میں آنجہانی ہوچکے ہیں لیکن بھارت کی یہ ویب سائٹس انہیں 2007ء میں یو این ہیومن رائٹس کونسل کے اجلاس میں ’’عالم بالا ‘‘ سے خصوصی پرواز کے ذریعے لینڈ کروا کر اجلاس میں شریک کروا دیتی ہیںیہی نہیں ان جعلی ویب سائٹس کے مطابق موصوف 2011ء میں واشنگٹن ڈی سی میں گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک اجلاس میں بھی موجود ہوتے ہیں ۔ انڈین کرانیکلز ڈرامے کا ڈراپ سین سوشل میڈیا کو لگام ڈالنے کی ضرورت ایک بار پھر پہلے سے زیادہ شدت سے سامنے لے آیا ہے ،ہمارے یہاں سوشل میڈیا پر کسی قسم کا کوئی چیک نہیں کسی بھی ملک میں بیٹھے ’’ نریندر مودی ‘‘ کو مولاناعبدالسلام کے نام سے یہاں گل کھلانے اور چاند چڑھانے کی پوری پوری اجازت ہے پاکستان کے خلاف زہر اگلنے ،جھوٹے سچے واقعات بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کھلی چھوٹ ہے سوشل میڈیا میں ان کا سب سے زیادہ خطرناک کام’’اعتماد ‘‘ اور ’’اعتبار ‘‘ کا خون ہے کون کس نام سے یہ کام کررہا ہے ؟ کسی کو خبر نہ علم ہے ،اس پلیٹ فارم سے ہماری معاشرتی قدروں پر ضرب لگائی تو جاہی رہی ہے ہمارے یقین کو بھی کھوکھلا کیا جارہا ہے ’’بھینسا ‘‘ اور ’’موچی ‘‘ نام کے فیس بک پیج زیادہ پرانی بات نہیں سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف پیجز سے کیا گند پھیلایا جارہا ہے یہ سامنے کی بات ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس شتر بے مہار کو روکا جائے اس بے نتھے بیل کو بھی رسی ڈالی جائے ،سوشل میڈیا کے لئے بھی قواعد و ضوباط ہونے چاہئیں تاکہ یہ وہ آستین نہ بنے جس میں سانپ پلتے ہیں۔