اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرکے تحلیل ہو گئیں، مرکزی اور صوبائی حکومتیں رخصت ہوئیں، نگران آ گئے۔ غالباً پاکستان واحد ملک ہے جہاں نگران حکومت انتخابات کراتی ہے ورنہ ہر جمہوری ملک میں الیکشن کمیشن اتنا طاقتور، آزاد اور خود مختار ہوتا ہے کہ برسراقتدار سیاسی جماعت انتخابات میں منظم یا غیر منظم کسی طرح کی دھاندلی نہیں کرپاتی۔ بھارت کے ہنود، اسرائیل کے یہود اور امریکہ و یورپ کے گمراہ لوگوں کا ووٹ چرانے کے لیے حمید گل، اسد درانی، اسلم بیگ اور ان کے ہاتھوں میں کھیلنے والی کٹھ پتلیاں نہیں ہوتیں۔ وہاں سروے، جائزے اور پری پول اندازے کچھ بھی ہوں فیصلہ ووٹ سے ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے اکثریتی پاپولر حمایت رکھنے والی ہیلری کلنٹن الیکٹورل ووٹوں میں ہار جاتی ہے تو دھاندلی کی تحقیقات اور انتخابی ووٹوں کی پڑتال کی نوبت نہیں آتی۔ سارا امریکہ اپنے الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ کچھ لوگ کہیں گے یہ پاکستان ہے امریکہ نہیں۔ یقین کریں پہلے امریکہ بھی پاکستان ہی تھا۔ امریکہ میں داخلی لڑائیاں کئی شکلوں میں تھیں۔ ایک طرف سیاہ فام غلام سفید فام مالکان سے آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے، دوسری طرف صنعتکار اور زمیندار گورے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔ صنعتکار نئے نئے منظم ہورہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ زمینداروں نے افرادی قوت کو غلام بنا کر صنعتکاروں کے لیے لیبر کا حصول مشکل بنا دیا ہے، اسی لیے صنعتکار غلامی کے خاتمہ کی بات کر رہے تھے۔ برطانیہ کئی علاقوں پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے سیاہ فاموں کو جیت کے بعد آزادی کا لالچ دے رہا تھا۔ پھر وہاں 1689 میں بل آف رائٹس ترتیب دیا گیا۔ دنیا کا پہلا لکھا ہوا، غیر لچکدار آئین تیار ہوا۔ پھر ایک مسلسل عمل کے نتیجے میں بہت سی ریاستیں مل کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ بن گئیں۔ تب سے اب تک امریکہ میں صرف آئین کی بالادستی ہوتی ہے۔ آج وہاں صنعتکار اور زمیندار ایک ہو گئے ہیں۔ کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل نہیں۔ برطانیہ سمیت کسی طاقت کو مداخلت کی جرأت نہیں۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جاتا۔ ہم نے دیکھا جب جب پارلیمنٹ نے آئینی ترامیم کیں عوام کے مفادات کو فراموش کیا۔ 58 ٹو بی کا آئین میں شامل ہونا ضیاء الحق کی باقیات کو اقتدار میں رکھنے کی کوشش تھی۔ 62,63 کی شقیں آئین میں اس لیے شامل کی گئیں کہ جن پر اعتراض ہو انہیں کسی بہانے پکڑا جا سکے۔ انتخابی اصلاحات 2017ء کی ترمیم، پھر یاد کریں انتخابی امیدواروں کی اہلیت سے متعلق تفصیلات کو کس طرح پارلیمنٹ نے بدل دیا۔ اس بار بھی چند رہنماؤں کو چوری، زنا، قبضہ، ٹیکس چوری میں ملوث ہونے کے باوجود اہل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ پانچ برس میں سے چار برس تک نوازشریف ملک کے وزیراعظم رہے۔ پھر شاہد خاقان عباسی آ گئے۔ پانچ برس کے دوران پارلیمنٹ نے عوام کو بااختیار بنانے کے لیے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو تو محترمہ مریم اورنگزیب، جناب پرویز رشید، دانیال عزیز یا کوئی دوسرا ہمیں بھی سمجھا دے۔ جب عوام کو بااختیار نہیں بنایا گیا تو ان کی طاقت سے مسلم لیگ کو کیا فائدہ ہوگا۔ غالباً 2012ء کے ابتدائی دنوں کی بات تھی۔ آصف علی زرداری اچانک دبئی چلے گئے۔ چند بزرگ تجزیہ کاروں کو ہمارے دوست ارشد یاسین نے فورم میں مدعو کیا۔ ان میں ایک اخبار کے مالک، ایک کالم نگار، ایک ایڈیٹر شامل تھے۔ سب کی پر یقین رائے تھی کہ آصف علی زرداری کی فوج سے بگڑ گئی ہے وہ واپس نہیں آئیں گے۔ ارشد یاسین گواہ ہیں کہ میں نے کہا تھا کہ آصف زرداری کو کچھ نہیں ہوگا۔ ایک اور واقعہ اس وقت کا ہے جب جنرل پرویز مشرف کی وردی کا معاملہ موضوع بحث تھا۔ جناب لیاقت بلوچ کو گل چمن شاہ نے اس معاملے پر گفتگو کے لیے مدعو کیا۔ میں فورم میں بیٹھا تھا۔ جناب لیاقت بلوچ ایم ایم اے کی نمائندگی کر رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ پرویز مشرف کو وردی اتارنے کی ایک سال تک مہلت دے دیں گے۔ کوئی ایک ماہ بعد ایم ایم اے نے ایک سال کی مہلت دینے کا اعلان کردیا۔ گل چمن شاہ نے ایک بار پھر لیاقت بلوچ کو بلایا۔ مجھے بھی دعوت دی۔ گزشتہ بحث کے دوران میرے تجزیئے کا حوالہ دیا گیا۔ لیاقت بلوچ کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ میں آسانی سے سیاسی معاملات کا تجزیہ کرلیتا ہوں کیونکہ تجزیہ کرنے کے لیے کسی کے پاس جو ٹولز ہونے چائیں لوگ انہیں استعمال نہیں کرتے، صرف اپنے تعصبات کو تجزیہ کا روغن کر دیتے ہیں۔ نیا تجزیہ یہ ہے کہ اس بار معاملہ کچھ اور رنگ میں جلوہ گر ہوا ہے۔ عوام اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین مقابلہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے نئے اور پرانے دھڑوں میں لڑائی ہے۔ عوام اس بات پر متفق ہیں کہ ضیاء کی باقیات 62 اور شق 63 کی کسوٹی پر اپنے مخالفوں کو ذبح کرتی آئی ہیں۔ اس بار انہیں ان کے ہتھیار سے ختم کیا جائے۔ عوام چاہتے ہیں کوئی بدنام اور ہسٹری شیٹر منتخب نہ ہوسکے۔ تحریک انصاف فاروق بندیال سے دامن بچا لیتی ہے۔ دوست محمد کھوسہ سے فاصلہ پیدا کرلیتی ہے۔ جمہوریت کے تحفظ، پارلیمنٹ کی بالادستی اور ووٹ کو عزت دو ٹائپ کے لیڈروں کو آگ بھڑکانے کے لیے ایندھن نہیں مل رہا۔ ان کے روایتی زہریلے سانپ کاٹ نہیں پا رہے۔ کیا اب ایاز صادق کو وہ احترام حاصل ہے جو ملک معراج خالد کو ملا تھا۔ کیا بڑے عہدوں والے نہیں جانتے کہ چلچلاتی دھوپ میں سڑک کنارے کھڑے لوگ ان کی برق رفتار سواریوں کو کتنی حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہیں۔ سیالکوٹ کے ایک سیاسی رہنما نے کہا تھا کہ ہم چھوٹی موٹی بدمزگی اور بے عزتی کو خاطر میں لانے لگیں تو سیاست نہیں کرسکتے۔ شاید اسی لیے قدرت نے ان سب کے لیے بہت بڑی بے عزتی کا سامان کردیا۔ اب لاہور ہائیکورٹ کی معزز جج جسٹس عائشہ اے ملک نے ایک فیصلہ دے دیا ہے۔ کوئی غنڈہ اسمبلی میں نہیں جا سکتا۔ پھر سے کہتا ہوں! کوئی بھی غنڈہ۔ اب غنڈے جیلوں میں جائیں گے اور سانپ پکڑے جائیں گے۔