کراچی میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر دہشت گردانہ حملے میں ایک سب انسپکٹر اور دو محافظ شہید ہو گئے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں چار حملہ آور مارے گئے۔ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے ایک ٹوئٹر اکائونٹ سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ صبح دس بجے کیا گیا۔ حملہ آور پارکنگ کے راستے عمارت کے احاطے میں داخل ہوئے اور انہوں نے دستی بم پھینک کر اپنا راستہ بنایا۔ دہشت گردوں کی فائرنگ سے تین پولیس اہلکار‘ دو سکیورٹی گارڈ، سٹاک ایکسچینج کا ایک ملازم اور دوشہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے اس حملے سے پہلے گزشتہ برس گوادر میں ایک فائیو سٹار ہوٹل پر بھی حملہ کیا تھا۔ بی ایل اے کی جانب سے گزشتہ مہینے بلوچستان میں سکیورٹی اہلکاروں پر تین حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی تھی۔ گزشتہ برس جولائی میں امریکہ نے بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ امریکی بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’بی ایل اے ایک مسلح علیحدگی پسند گروہ ہے جو پاکستان میں واقع بلوچ اکثریتی علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بناتا ہے‘‘۔ یہ بی ایل ہی تھی جس نے نومبر 2018ء میں کراچی میں چینی قونصلیٹ کو نشانہ بنایا تھا۔ دہشت گرد قرار دیے جانے کے بعد امریکہ میں موجود تنظیم کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادیں منجمد کر دی گئیں۔ امریکی عوام کو قانونی طور پر پابند کیا گیا کہ اس تنظیم سے کسی طرح کا لین دین نہ رکھیں۔بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا امریکی فیصلہ پاکستان کے لئے اس لحاظ سے باعث اطمینان تھا کہ اس تنظیم نے گزشتہ چند برسوں میں اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا رخ پاکستان کے اقتصادی اور معاشی مفادات کو نشانہ بنانے کی طرف کر دیا ہے۔ پاکستان ایک طویل عرصہ تک قرضوں پر معاشی سرگرمیاں فعال کئے رہا۔ ایک ایسی ریاست جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں اور جس کے باصلاحیت لوگ ترقی یافتہ دنیا کے ہمقدم ہونا چاہتے ہوں اس کے ساتھ دشمنی میں سب سے خطرناک ہتھیار معاشی مفادات پر حملہ ہوتا ہے۔ پاکستان خطے کے معاملات میں ہمیشہ اہم رہا ہے۔ امریکہ ہو روس ہو یا چین ہر ملک مخصوص معاملات میں پاکستان کی مدد اور تعاون کا طلب گار رہا ہے۔ ایٹمی صلاحیت کے حصول کے بعد پاکستان نے کوشش کی کہ اپنی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کو معاشی خود کفالت کی بنیاد پر ترتیب دے۔چین کے صدر زی جن پنگ نے چند برس پہلے ون بیلٹ ون روڈ کے نام سے ایک منصوبہ ترتیب دیا۔ اس منصوبے میں چین کے دور دراز علاقے اقصائے چین کو پاکستان سے سی پیک راہداری کے ذریعے یورپ سے منسلک کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس سلسلے میں خطے کے دیگر ممالک اور ان تمام ممالک کو بھی منصوبے کا حصہ بننے کی پیش کش کی گئی جہاں سے چین کا تجارتی مال گزر سکتا ہے۔ چینی قیادت کا خیال ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے مختلف ممالک کے مابین تجارتی اور معاشی رشتے فروغ پائیں گے اور باہمی تنازعات کو پرامن طریقے سے طے کرنے کے امکانات میں اضافہ ہو گا۔ اکثر ممالک نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا۔ بھارت واحد ملک ہے جو سی پیک منصوبے سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے ہر حال میں سبوتاژ کرنے کے درپے ہے۔ بھارت کو اس سلسلے میں یورپ سے تو خاطر خواہ تعاون نہ مل سکا لیکن امریکہ کی شکل میں اسے ایک ہمدرد میسر آ گیا۔ امریکہ چونکہ عالمی سطح پر چین کا اثرورسوخ بڑھنے سے پریشان ہے اس لئے بھارت نے اس کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا ہے۔ بھارتی قیادت متعدد مواقع پر اس بات کا بلا دھڑک اعلان کر چکی ہے کہ وہ بلوچستان میں حالات اس حد تک خراب کر دیں گے کہ پاکستان کے لئے قابو پانا مشکل ہو جائے۔ کلبھوشن جادیو بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ بلوچستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں سے متعلق سازشوں کا حصہ رہا ہے۔ بلوچستان لبریشن آرمی اور اس جیسے چند دوسرے گروپ ریاست پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ ان گروپوں کو منظم کرنے اور ان کو فنڈز کی فراہمی کا نظام بھارتی خفیہ اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ چند ماہ سے یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ بلوچستان اور سندھ میں سرگرم بعض دہشت گرد تنظیموں کا نیا اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس اتحاد کا مقصد سی پیک منصوبوں پر حملے‘ بیرونی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرنا اور خاص طور پر پاکستان کے سٹریٹجک و معاشی شراکت دار چین کے خلاف کارروائیاں بڑھانا ہے۔ بی ایل اے کا بلوچستان کی بجائے کراچی میں دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کرنا اسی منصوبے کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ سٹاک ایکسچینج پر حملے کے دوران پولیس اور سکیورٹی فورسز کی بروقت جوابی کارروائی اس لحاظ سے قابل ستائش ہے کہ دہشت گردوں کو عمارت کے مرکزی حصے تک پہنچنے سے قبل ہی ہلاک کر دیا گیا۔ تاہم اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ چین کے ساتھ حالیہ جھگڑے کے بعد بھارت اپنی لے پالک دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے پاکستان کی سرزمین پر دونوں دوست ممالک کے معاشی مفادات پر حملہ آور ہونے کی مزید کوشش کر سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ بی ایل اے اور بھارت کے درمیان تعلق اور رابطوں کے ثبوت اقوام متحدہ اور امریکہ کو فراہم کر کے مطالبہ کرے کہ بھارت کو دہشت گردوں کی سرپرست ریاست قرار دیا جائے۔