عالمی بنک نے پاکستانی معیشت کی مایوس کن تصویر پیش کی ہے، ایک ’’اطلاع‘‘ ایسی ہے کہ حکومت چاہے تو اسے بھی اپنی ’’سفارتی کامیابیوں‘‘ میں شامل کر لے۔ بتایا ہے کہ 2001ء کے بعد پہلی بار پاکستان کا غربت مٹائو پروگرام پیشرفت سے محروم ہو جائے گا۔ یہ اطلاع اپنی جگہ ’’تاریخی‘‘ سہی لیکن عالمی بنک کو اطلاع ذرا اوپر سے ملی اور ادھوری ملی۔یہ پیش رفت نہ ہونا تو اب معنے نہیں رکھتا، یہاں تو غربت بڑھائو پیشرفت برق رفتاری سے ہو رہی ہے۔ چند دن پہلے ایک تجزئیے میں انکشاف یا دعویٰ کیا گیا تھا کہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا تناسب 55فیصد ہو گیا ہے یعنی آدھی آبادی سے بھی 5فیصد زیادہ۔ ایسی حیران کن کامیابی کی تو پوری دنیا مثال پیش نہیں کر سکتی۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ دلیل یہ دی ہے کہ روپے کی قیمت مستحکم ہو گئی ہے۔ یعنی حکومت کے نزدیک استحکام یہ ہے کہ ڈالر سو روپے سے مہنگا ہوتا ہوتا 156،157روپے ہو گیا اور اب چونکہ مزید نہیں بڑھ رہا اس لیے استحکام ہو گیا۔ استحکام کی اس تعریف سے معاشی حالات کی بہتری کا مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ زندہ رہنے کے لیے جو چیزیں لازمی ہیں، وہ سب مہنگی ہو گئی ہیں اور مزید مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے حالات میں اگر یہ خبر پڑھنے کو ملے کو سبز مرچ ساڑھے چار سو روپے کلو ہو گئی تو پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سبز مارچ بہرحال زندہ رہنے کے لیے لازمی نہیں ہے۔ حکمران جماعت کی معاشی لغت کے حساب تو مرچ، ٹماٹر وغیرہ قسم کی چیزیں ’’لگژری‘‘ آئٹمز ہیں لیکن لہسن کے بارے میں کیا خیال ہے، وہ چار سو روپے کلو مل رہا ہے۔ ہر طرح کی سبزی اور دالیں بھی اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ راشن کی فہرست میں ان کا مطلوبہ وزن کم کر کے لوگ خریداری کے لیے جانے لگے ہیں۔ آٹا تو اور بھی مہنگا ہو گیا ہے جبکہ بجلی کے نرخ بڑھنے سے تنخواہ دار طبقے کی ماہانہ آمدنی ویسے ہی کم ہو گئی ہے۔ سراج الحق صاحب نے دلچسپ بیان دیا، فرمایا کہ اس حکومت نے چودہ ماہ کے اقتدار میں عوام کے چودہ طبق روشن کر دیئے ہیں۔ اگلے ماہ لوگوں کا پندرھواں طبق بھی روشن ہو جائے گا۔ کل طبق 14ہی ہوتے ہیں، پندرھویں کو بونس سمجھئے، پھر سولہویں مہینے سولہواں طبق کیسے روشن ہو گا۔ سیاسی نجومی کہتے ہیں کہ سولہواں طبق چونکہ خارج از امکان ہے، اس لیے اس کے روشن ہونے کے امکانات بھی صفر ہیں۔ کیا مطلب؟سولہواں نہیں لگنے والا؟ ٭٭٭٭٭ استحکام کی ایک اور وضاحت حکومت نے یوں کی ہے کہ درآمدات کم ہو گئیں، برآمدات بڑھ گئیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ کون سی درآمدات کم ہوئیں؟ اقتصادی خبروں میں آیا ہے کہ خام مال کی درآمد کم ہوئی، یعنی صنعتوں کا بھٹہ جام کرنے کی اور پھر مزید بے روزگاری کا راستہ سیدھا کیا گیا۔ سبحان اللہ کیا ’’کمی‘‘ ہے اور اضافہ برآمدات مبلغ دو اڑھائی فیصد ہے۔ نہ ہونے کے برابر اور یہ بھی ڈالر کی قیمت چڑھنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ڈالر تو جوں کے توں رہے۔ حقیقی معنوں میں تو برآمدات کم ہوئیں۔ بہر حال حکومت کہتی ہے بڑھوتری ہوئی تو ٹھیک ہے، ہوئی ہو گی۔ ٭٭٭٭٭ جرائم میں حیرت انگیز اضافہ سبھی نوٹ کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک خبر کسی صوبے کے آئی جی کے حوالے سے آئی ہے۔ انہوں نے اپنے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ معاشی صورتحال زبوں سے زبوں تر ہوتی جا رہی ہے؛چنانچہ جرائم بڑھ رہے ہیں۔ ایک اور تجزیہ کار نے کہا، صرف سنگین جرم ہی نہیں، معاشی وجوہات پر خودکشیوں میں بھی تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ منطق سیدھی ہے، جب لوگوں کی لازمی ضروریات بھی پوری نہ ہوں، کھانے کو روٹی نہ ملے، بجلی کا بل دینے کے لیے پیسے نہ ہوں تو تین ہی راستے بچتے ہیں۔ اوّل جرم، دوم خود کشی، تیسرے بھیک مانگنا۔ بھیک مانگنے کا سکوپ بھی تو دن بدن کم ہو رہا ہے۔ پاکستانی پہلے ہی خیرات کرنے کے اتنے قابل کہاں تھے۔ تازہ عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان اب ان ملکوں میں شامل ہو گیا ہے جس کے لوگ سب سے کم پیسے خیرات یا رفاعی کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔ ورلڈ گونگ انڈکس کے مطابق پاکستان خیر سے اس معاملے میں 91ویں نمبر پر آ گیا ہے یعنی موزمبیق اور یمن کے برابر؛چنانچہ دو ہی راستے بچ گئے، وہی اوّل الذکر دو، الاّ کہ خدا کسی کو بچا لے۔ جرائم میں اضافہ گونا گوں بھی ہے اور ہمہ مسمی بھی، یعنی ہر صنف جرم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نیا پہلو یہ ہے کہ بے روک ٹوک ہو رہا ہے۔ ڈینگی پھیلے یا جرم، حکومت کی طرف سے فری ہینڈ ہے۔ کم از کم اس بارے میں ’’گھٹن‘‘ اور ناروا پابندیوں کا شکوہ نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو عدم تحفظ کا خطرہ ہے۔ پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھے گی، پاکستان میں غربت مزید بڑھے گی اور پاکستان میں بے روزگاری بھی مزید بڑھے گی۔ یہ تینوں باتیں عالمی بنک نے ہی بتائی ہیں۔ گویا جرم کی ’’مردم شماری‘‘ میں ابھی اور اضافہ ہو گا۔ اپنا سفر زندگی بیچ ہی میں اپنے ہاتھوں ختم کرنے والوں کی گنتی بھی بڑھتی رہے گی۔ کیا خوب منزلِ مراد پائی ہے۔ سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال کا ایک فقرہ یاد آ رہا ہے، ذرا سے ردوبدل کے ساتھ یوں کہ باخدا، یہ کچھ لوگ ہمیں کہاں لے آئے ہیں اور چلتے چلتے حکومت کے لیے ایک خراج تحسین، کہنے والے نے کہا، ملک کو پچاس لاکھ لنگر خانوں کی ضرورت ہو گی۔ خان نے دو تو کھول دیئے، اتنی کم مدت میں، باقی رہ گئے صرف 49لاکھ 99ہزار نو سو اٹھانوے……