کچھ غالبؔ شناس ڈاکٹرحضرات کا کہنا ہے کہ مرزا غالبؔ اگر پینے کے اس قدر رسیا نہ ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ وہ چند سال اور زندہ رہتے ۔ دوسری طرف محبّانِ غالبؔ اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ اُستاد اگر ’ دخترِ رِز ‘ کو مُنہ نہ لگاتے تو شاید ایسی لازوال شاعری کبھی نہ کر پاتے ۔اور ایسی صورت میں وہ چند سال اور تو کیا بھلے سو سال بھی زندہ رہتے تو ہمارے کس کام کے تھے ۔ویسے بھی یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مرزا کی زندگی سے اگر شاعری نکال دیں تو پھر ان کا مقام تقریباًہمارے برابر ہی آجاتا ہے بلکہ بعض حوالوں سے ہمیں ان پرشاید ایک آدھ درجہ فوقیت ہی حاصل ہو گی ۔ یہ بات واضح ہے کہ غالب ؔ کو پینے سے کوئی غرض نشاط وغیرہ ہرگز نہیں تھی ۔ ہاں البتہ ایک درجہ جنون ، اک گونا بے خودی انہیں مطلوب تھی جس کے لیے وہ عمر بھر مے نوشی کے مرہوں منت رہے۔اور پھر بے خودی پہ ہی کیا موقوف ہے وہ کئی دیگر ضروری کاموں کے لیے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا کرتے ۔ مثلاً اگر وہ سحر طاری کر دینے والی گفتگو کرنا چاہتے اور ’’ اندازِ گُل افشانی گفتار ‘‘ دکھانا چاہتے تو وہ ’’ پیمانہ صہباء ‘‘ کو سامنے رکھنے کی فرمائش کیا کرتے تھے ۔ حالات جیسے بھی رہے مرزا نے مے کے عمدہ معیار پہ کبھی سمجھوتا نہیں کیا ۔چنانچہ فاقہ مستی رہی یا قرض کی صورتِ حال ، اس حوالے سے ان کا ذوق اور معیار کبھی گرنے نہیںپایا۔ اس بابت ایک دفعہ ایک دوست کو لکھتے ہیں : ۔ یہ گڑ چھال کی مے میں نہیں پیتا ۔ یہ مجھ کو مضرت کرتی ہے اور مجھے اس سے نفرت ہے ۔ غالب کو طعام ، کلام ، آم ، آرام کے علاوہ اگر کچھ اور مرغوب تھا تو بلا شُبہ وہ جام تھا ۔ چنانچہ موصوف کہا کرتے تھے : جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا / سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہو گئیں ۔ استاد غالب ؔ کی دوسری مرغوب ترین چیز آم تھی ۔مرزا اپنے ایک خط میں خود بڑی حسرت سے لکھتے ہیں کہ اب اُن میں آم کھانے کی وہ رغبت رہی ہے اور نہ وہ طاقت جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی لیکن اگلا جُملہ انتہائی حیران کُن بلکہ خوفناک ہے ۔لکھتے ہیں کہ اب وہ پہلے کی طرح بڑی مقدار میں تو آم نہیں کھا سکتے چنانچہ بڑی مُشکل سے ایک وقت میں ’ صرف ‘ دس بارہ ہی کھا پاتے ہیں ۔ذرا سوچیئے ! بڑھاپے میں ایک وقت میں حضرت دس بارہ آم کھا جاتے تھے تو جوانی میں آموں کی تعداد کیا رہتی ہوگی !۔ ۔ان کی راحت پسندی ، آرام طلبی کی عادت اور لاجواب Sedentary طرزِ زندگی کے پیشِ نظر بڑھاپے میں اس قدر میٹھے کے استعمال سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف مثالی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ شاید شوگر کے بھی مثالی مریض رہے ہوں گے ۔ قوی شبہ ہے کہ موصوف کی نہار مُنہ بلڈ شوگر شاید ہی کبھی تین چار سو سے کم رہی ہو ۔ غالب ؔ کی آرام پسندی بھی مثالی رہی ۔ موصوف کو آرام طلبی سے غرض تھی چاہے کہیں میسّر آئے ۔ اس حوالے سے ان کا یہ شعر ان کے ’ منشور ‘ کا تعین کرتا ہے ۔۔۔ نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں /گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے ۔موصوف اپنی آرام پسندی کے حوالے سے دوستوں کو لکھا کرتے تھے ، ’ میں مرنے سے نہیں ڈرتا ۔ فقدانِ راحت سے گھبراتا ہوں۔ مرزا نوشہ اکثر رنجیدہ رہتے کہ انہیں وہ صلہ و ستائش نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے ۔استاد عمر بھر بادشاہوں اور نوابوں کے قصیدے لکھا کیے لیکن متوقع اعزاز و اکرام اور عنایات سے اکثرو بیشتر محروم ہی رہے ۔ ان کے لکھے ہوئے با کمال قصیدے عموماّ مکتوب الیہ یعنی متعلقہ بادشاہ یا نواب تک پہنچ ہی نہیں پاتے تھے نیچے وزیر شذیر ہی انہیں پڑھ کر دل پشوری کر لیتے تھے یا پھر کئی دفعہ ایسا ہوا قصیدہ قبلہ بادشاہ تک پہنچا انہوں نے پڑھا خوش بھی ہوئے اورمرزا کے لیے انعام و اکرام بھی بھجوایا لیکن مرزا کے پاس پہنچنے سے پہلے اس انعام کی ایسی بندر بانٹ ہو جاتی رہی کہ مرزا کے ہاتھ کچھ بھی نہ آتا ۔ قصیدے بھیجنے کے باوجود مطلوبہ قدردانی نہ ہونے پر مرزا افسردہ رہتے اور دوستوں کو مکتوب لکھتے اور گلہ کرتے ۔ایسی ہی ناقدری کے بعد وہ اپنے ایک خط میں ایک دوست کو یوں لکھتے ہیں ، ’’ ایک کم ستر برس کی میری عمر ہوئی ۔سوائے خشک شہرت کے فن کا کچھ پھل نہ پایا ۔ ‘‘ غالب ؔ کی زندگی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس انتہائی حسّاس طبع انسان کو کیسے کیسے غم و آلام درپیش رہے ۔ اور یہ انہیں کیسے برداشت کرتا رہا ۔پھر اس پہ اور بھی حیرت ہوتی ہے کہ یہ ان غموںکے دوران ایسی لازوال شاعری بھی کرتا رہا ۔ غالب ؔکو غمِ مرگ ، غمِ فراق، غمِ رزق ، غمِ عزت لاحق رہے ۔ ایک ہی سگا بھائی تھا جو عمر بھر دیوانہ رہا اور پھر چل بسا۔گھر میں ایک پیسے کی آمد نہیں تھی اور ملازم اور گھر والوں کو ملا کر کوئی بیس لوگ تھے جن کے قیام و طعام کا بندوبست اُن کے سر تھا۔عمر بھر فاقہ مستی اور کسمپرسی کی حالت رہی ۔ ایسے میں مرزا بادہ خوری سے منسوب ایسی بے خودی کی خواہش کرتا رہا جو حالات کی تلخی کو قدرے کم کر دے ۔ وہ ساقی گری کی شام کرنے کی بات کرتا رہا ۔ حتیٰ کہ اُس کی اپنی زندگی کی شام آگئی اور وہ اپنے تئیں گزرے اچھے دنوں کو یاد کرتے دنیا سے اٹھ گیا ۔ وہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خواب سحر گئی