ڈسٹرکٹ اینڈ ٹیچنگ ہسپتال ساہیوال کے چلڈرن وارڈ کے اے سی خراب ہونے سے 8 نومولود جاں بحق ہو گئے ہیں۔ ہسپتالوں میں انتظامیہ کی غفلت کے باعث ہلاکتیں معمول بن چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں سندھ میں بچوں میں ایچ آئی وی وائرس کا معاملہ سامنے آیا ہے تو ماضی میں وہاڑی میں آکسیجن کے خالی سلنڈر لگانے سے سات بچے جان کی بازی ہار گئے تھے۔ وطن عزیز کا المیہ تو یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد محکمہ صحت کا بجٹ بڑھا دیا جاتا ہے۔ اگر معاملہ ٹھنڈا کرنے کیلئے کسی کو معطل کیا بھی جاتا ہے تو انکوائری انکوائری کھیل کر ذمہ دار بحال کر دیئے جاتے ہیں۔ کہنے کو تو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے عوام کو سٹیٹ آف دی آرٹ طبی سہولیات فراہم کرنے کیلئے محکمہ صحت کو پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کیئر کی صورت میں دو وزارتوں میں تقسیم کر کے صحت کابجٹ دوگنا کر دیا تھا مگر اس اضافہ کا فائدہ عوام کی بجائے بھاری تنخواہوں کی صورت میں ہیلتھ کیئر کمشن کے افسران کو پہنچایا گیا۔ اس کی تائید گزشتہ دنوں محکمہ صحت کا 700 سے زائد مارکیٹ ریٹ پر بھرتی کئے گئے ہیلتھ کیئر کے افسران کے کنٹریکٹ میں توسیع نہ کرنے سے بھی ہوتی ہے۔ ایک تاثر یہ بھی کہ سابق حکومت کے یہی وفادار حکومت کو ناکام بنانے کیلئے آئے روز کوئی نہ کوئی سکینڈل پیدا کرتے ہیں۔ بہتر ہو گا حکومت محکمہ صحت میں اصلاحات کے ساتھ ذمہ داران کو قرار واقعی سزا کا موثرنظام بھی متعارف کروائے تاکہ معصوم جانوں سے کھیلنے والوں کا محاسبہ ممکن ہو سکے۔