امن محض ایک خواہش۔ ایک آشا نہیں ہے۔ آشائیں تو دل کی سرزمین پر بنتی اور بکھرتی رہتی ہیں۔ بلکہ امن تو ایک ضرورت ہے۔ جو زندگی کی ہر ضرورت سے زیادہ ضروری ہے۔اس لیے کہ زندگی امن کی فضا میں ہی پھلتی پھولتی ہے۔ امن کی موجودگی میں شاموں کا رنگ کاسنی ہوتا ہے اور خواہش البیلے گیت بنتی ہے۔امن کی فضا میں ہمارے دن سنہری دھوپ میں ڈھلے‘ زندگی کی ہماہمی سے لبریز ہوتے ہیں۔زندگی امن کی فضا میں خواب بنتی ہے‘ اچھے دنوں کے‘ خوب صورت مستقبل کے اور امن کی فضا میں ہی زندگی… زندگی کی طرح محسوس ہوتی ہے۔اگر بستیوں میں امن نہ رہے‘ زندگی خوف اور بے یقینی کے سائے میں گزرتی ہے۔ دل میں خواہش نہیں خدشے جنم لیتے ہیں۔ امن کی موجودگی میں سجدوں میں جھکی ہوئی بوڑھی جبینیں مستجاب دعائوں کے پھول چنتی ہیں۔ ان کے خوابوں کو قریہ تعبیر نصیب نہیں ہوتا ہے اور اگر امن نہ رہے تو بوڑھے ہاتھ جوان خوابوں کی لاشوں کو دفناتے بدامنی کا ماتم کرتے ہیں۔ امن محض ایک آشا نہیں ایک ضرورت ہے۔ زندگی کو زندگی کی طرح جینے کے لیے امن کی چھائوں ازبس ضروری ہے۔پاکستان اور بھارت دو ملک‘ دو ہمسائے۔ جن کے مسائل بھی سانجھے ہیں۔ سرحد کے اس پار بھی غربت ہے‘ بھوک ہے‘ جہالت ہے بلکہ ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں بھوک اور غربت کی شدت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ حالات یہاں بھی قابل اطمینان نہیں ہیں۔ معاشی عدم استحکام‘ کم آمدنی‘ بیروزگاری اور کم غذائیت سے بیمار ہوتے بچے ہیں۔ دونوں ملکوں میں لاکھوں بچے پائوں سے ننگے ہیں‘ میلے‘ دریدہ لباس پہنے‘ گلیوں میں خشک پتوں کی طرح بے سمت اڑتے پھرتے زندگی بسر کرتے ہیں۔یہ وہ انسانی سرمایہ ہے جس کی حفاظت ہونی چاہیے۔ جس کو صاف ستھرے لباس میں کسی مکتب کے اجلے ماحول میں قلم اور کتاب کے ساتھ مصروف ہونا چاہیے۔ سرحد کے دونوں اطراف بے حسی کی گلیوں میں رُلتا یہ انسانی سرمایہ کس کی ذمہ داری ہے؟دونوں میں لاکھوں لوگ‘ بیماری میں دوا‘ بھوک میں روٹی سے محروم ہیں۔ باعزت طرز زندگی جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے یہ لوگ اس زندگی سے محروم ہیں مگر ایک دوسرے پر بندوق تانے ہوئے ان دونوں ملکوں کو بھاری بجٹ‘ جنگوں کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے۔ وہ سرمایہ جس سے سکول بننے چاہئیں‘ جس سے ہسپتال بننے چاہئیں‘ وہ جنگوں کی تیاری میں جھونکا جارہا ہے۔ہمیں جنگ کی نہیں امن کی ضرورت ہے۔ اسلام امن‘ سلامتی اور خیرخواہی کا مذہب ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اب ضرورت ہے کہ سنجیدہ ڈائیلاگ ہو۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ لاکھوں کشمیری اپنا لہو اس تحریک کو دے چکے ہیں اور پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان وجہ تنازع مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں میں بداعتمادی اور بدامنی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کئی دہائیوں سے موجود یہ تنائو دونوں ملکوں کے درمیان مسلسل بے امنی کی صورت حال پیدا کئے ہوئے۔آپ کا کیا خیال ہے کہ جنگیں سرحد پر ہوتی ہیں صرف۔ شاید وہ وقت بیت گیا۔ اب بدلتے وقت کے ساتھ جنگوں نے بھی اپنی صورت بدل لی ہے۔ یہ جو ہم گزشتہ بیس سالوں سے اپنے گلی محلوں‘ ہسپتالوں‘ سکولوں‘ چوکوں‘ چوراہوں کو قتل گاہ بنتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ جنگ کی بدترین شکل ہے۔ کلبھوشن کا پاکستان میں تخریب کاری کا اعتراف پوری دنیا کے سامنے ہے۔ اس نے کہا کہ وہ ایک جاسوس کی حیثیت سے سی پیک کی تباہی اور جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تھا۔ کلبھوشن تو ایک نام ہے۔ کون جانے کہ اس طرح کے کتنے اور کلبھوشن ہمارے امن میں نقب لگانے بیٹھے ہوں۔سرحد پر ہونے والی جنگ سے دشمن کی یہ بے چہرہ جنگ زیادہ خطرناک اور ایسی بے چہرہ جنگ کی دیمک تو دہائیوں سے معاشرے کا سکون چاٹ رہی ہے۔ دونوں ملکوں کو سوچنا ہوگا کہ جنگ مسئلوں کا حل نہیں ہے۔ بھارت اس وقت جنگ کے ہیجان میں مبتلا دکھائی دیتا ہے اور تو اور بھارتی میڈیا جن برین لیس لوگوں کے ہاتھ کٹھ پتلی بنا ہوا ہے اس کا کردار اس حساس موقع پر بہت غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ملکوں کے حکمران‘ فوج‘ سیاستدان‘ دانشور‘ مفکر‘ معاشرے کی سوچ بنانے والے کالم نگار‘ صحافی‘ لکھاری‘ شاعر‘ فنکار‘ مرد‘ عورتیں اور بچے سب امن کے لیے جدوجہد کریں۔طویل جنگیں بھی مذاکرات کی میز پر حل ہوتی ہیں تو مسئلہ کشمیر مکالمے اور مذاکرات سے حل کیوں نہیں ہوسکتا۔ دونوں ملک ایٹمی قوت ہیں اور اس ایٹمی قوت کی چھتری کے نیچے لاکھوں کروڑوں انسان غربت کی ذلت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی سے جبر اور قہر کاراج ہے۔ زندگی بدامنی کے صحرا میں آبلہ پا ہے۔ کاش کہ دلوں میں امن کی خواہش کا بیج پھوٹ پڑے۔ کشمیریوں کی طویل جدوجہد آزادی کو منزل نصیب ہو۔ کاش کہ ایٹمی قوت حاصل کرنے والے ان دونوں ملکوں میں ذلت کے مارے غربت زدہ انسانوں کو بھی عزت امن اور خوشحالی نصیب ہو۔ اس لیے کہ امن محض ایک آشا اور خواہش نہیں بلکہ یہ وہ ضرورت ہے جو زندگی کی ہر ضرورت سے زیادہ ضروری ہے۔ جنگ تو بنی بنائی بستیوں کو اجاڑ دیتی ہے۔ بسے بسائے گھروں کو ویران کردیتی ہے۔جنگ بھوکے کو روٹی نہیں دیتی بلکہ بچا ہوا نوالہ بھی چھین لیتی ہے۔ جنگ کھیتوں میں بھوک اگاتی ہے۔ کارخانے کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں کو راکھ کرتی‘ مشینوں کو زنگ آلود کرتی ہے۔ جنگ میں تابوتوں کا کاروبار بڑھتا ہے۔ یہ پارکوں‘ باغوں کو ویران کرتی۔ ہسپتالوں اور قبرستانوں کو آباد کرتی ہے۔ خدا کے لیے ساری توانائیاں امن کے لیے صرف کریں۔ امن پاکستان اور بھارت میں۔ امن اور آزادی کشمیر میں۔ جو کشمیریوں کا بنیادی حق ہے۔ساحر لدھیانوی کی نظم کا یہ بند یاد آتا ہے: خون اپنا ہو یا پرایا ہو/نسل آدم کا خون ہے آخر جنگ مشرق میں ہو کے مغرب میں/امن عالم کا خون ہے آخر بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر/روح تعمیر زخم کھاتی ہے کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے/زیست فاقوں سے تلملاتی ہے اس لیے اے شریف انسان!/جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں/شمع جلتی رہے تو بہتر ہے