شواہد ہیں،ثبوت ہیں۔ تمام آثار سامنے آ رہے ہیں کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے،ہمارا معاشی نظام برق رفتاری سے رواں دواں ہے،معیشت،کاروبار اور تجارت کے اعتبار سے نومبر بہترین مہینوں میں سے ایک رہا،ڈالر کی قیمت مستحکم ہو رہی ہے،اسٹاک مارکیٹ اچھے نتائج دے رہی ہے،معاشی ترقی اور بحالی کا تسلسل جاری ہے،ترسیلات زر ،ٹیک آمدن اور صنعتوں کی پیداوار میں ریکارڈ بہتری آ رہی ہے،گاڑیوں کی فروخت، ٹیکسٹائل، سیمنٹ اور اسٹیل میں بھی ڈیمانڈ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، سب سے امید افزا بات یہ ہے کہ کھاد کی فروخت میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے گویا کہ فصلوں کے لئے بھی یہ بہت اچھا ثابت ہو رہا ہے ،ملائشیا اور چین نے بھی پاکستان میں گاڑیوں کی اسمبلنگ کا آغاز کردیا ہے۔اس ماہ آٹو سیلز پچھلے سال کی نسبت 63 فیصد زیادہ رہی،گاڑیوں کی فروخت میں 13.6 فیصد اضافہ ہوا،بڑے پیمانے پر پیداوار یعنی ایل ایس ایم انڈیکس میں پچھلے مہینے7 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا،ڈیزل کی فروخت میں 29 فیصد اضافہ ہوا،پٹرول مہنگا ہونے کے با وجود سیل میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معیشت کا پہیہ پوری رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پچھلے مہینے فرنس آئل کی سیل18 فیصد بڑھ گئی،یوریا کی فروخت میں 35 فیصد اضافہ ہوا،جو ایک مثبت انڈیکیٹر ہے۔ زراعت کے حوالے سے۔جولائی سے نومبر میں سیمنٹ کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا،4 فیصد سیل مزید بڑھ گئی ،ترسیل زر میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے،مسلسل چھ مہینے سے ترسیلات زر سوا دو ارب ڈالر سے زائد رہی جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے،پچھلے ماہ 2ارب 34 کروڑ کی ترسیلات زر آئیں، نومبر مسلسل پانچواں مہینہ ہے جب کرنٹ اکائونٹ سر پلس رہا۔ وزیر اعظم نے بھی ٹویٹ کیا کہ کورونا کے با وجود معیشت آگے بڑھ رہی ہے ‘اس کا ثبوت یہ ہے کہ کرنٹ اکائونٹ سر پلس ہے۔ کرنٹ اکائونٹ نومبر میں 447ملین ڈالر سر پلس رہا۔پچھلے سال کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.7 ارب ڈالر تھا جو اس سال 1.6 ارب ڈالر سر پلس ہو گیا۔2018 میں جب پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تھا تو کرنٹ اکائونٹ خسارہ 22 ارب ڈالر ہو چکا تھا جو پاکستان کو دیوالیہ قرار دینے کے لئے کافی تھا اسی لیے آئی ایم ایف کی جانب جانا پڑا۔سٹیٹ بنک میں سرکاری ذخائر اب 13 ارب ڈالر سے زائد ہو چکے ہیں جو تین برسوں میں سب سے زیادہ ہیں، وزیر اعظم نے ایک تقریب میں کہا کہ دو سال بعد بڑی مشکل سے ہماری اکانومی اب چلنا شروع ہوئی ہے ‘مثبت اشارے نظر آ رہے ہیں ‘کنسٹرکشن سیکٹر اٹھ رہا ہے ‘انڈسٹری چل رہی ہے۔دیکھا جائے تو کورونا کے باوجود جولائی سے نومبر تک ایکسپورٹ میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔پچھلے ماہ 10 سال بعد 2 ارب 15 کروڑ ڈالر کی ریکارڈ ایکسپورٹ ہوئی ہیں،اسی طرح پچھلے مہینے اسٹاک ایکسچینج میں 3 فیصد اضافہ اور گزشتہ 9 ماہ میں 59 فیصد اضافہ ہوا۔مختلف ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ معاشی سر گرمیاں اسی طرح جاری رہیں تو اگلے سال پاکستان کی معیشت بہترین ملکوں میں شمار ہو گی،اسی طرح مسلسل 6 ماہ سے شرح سود مستقل 7 فیصد رہنے سے کارو باری قرضوں کے علاوہ ہوم فنانسنگ اور آٹر فنانسنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ بینکنگ سیکٹر بہتر کام کر رہا ہے،کنسٹرکشن پیکیج کے نتیجے میں زبر دست ماحول بن رہا ہے اور پائپ لائن میں جو پراجیکٹ ہیں ‘جو اس وقت پورٹل میں شامل کئے گئے ہیں‘ جن کو 31 دسمبر تک خصوصی ٹیکس رعایت ہے وہ پراجیکٹ جب گرائونڈ پر آئیں گے تو قومی معیشت کو بہت بڑی پش دینگے اس سے بہت بہتری نظر آئے گی۔2 ماہ سے ہمارے روپے کی قدر بھی مستحکم ہے ‘انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 160 کے آس پاس نظر آ رہا ہے‘27 اگست کو ڈالر 168 روپے 43 پیسے کی بلند ترین سطح پر تھا۔ ماہرین کے مطابق نومبر کے نمبر بہت حوصلہ افزا ہیں‘ اکانومی میں بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔خاص طور پر لارج اسکیل مینو فیکچرنگ میں بہتری نظر آتی ہے ۔ شہروں میں رہنے والوں کا انڈسٹری سے زیادہ تعلق ہے۔ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ کنسٹرکشن پیکیج کی وجہ سے جو ٹیکس کی مراعات سامنے آئی ہیں اس کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں سینکڑوں پراجیکٹ پلان کئے گئے ہیں۔ یہ پراجیکٹ اگلے سال سے گرائونڈ پر آنے لگیں گے ۔ان کی وجہ سے 30 سے زائد انڈسٹریاں چلیں گی۔ 11/9کے بعد کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ پاکستان ترقی کرے گا لیکن 2002 سے2006 تک پاکستان کی اکانومی نے ریکور کیا۔اسی طرح جب کوویڈ آیا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ سر پلس ہو گا۔ تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ زر مبادلہ میں 10 سے 15 فیصد کمی آئے گی لیکن سب نے دیکھا کہ کوویڈ میں کرنٹ اکائونٹ اور زر مبادلہ کا فائدہ ہوا۔کوویڈ سے نقصان بھی ہوا کہ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کم ہوئی ،ٹیکس ریونیو میں کمی ہو ئی۔مگر زر مبادلہ کا آفیشل چینل پر آنا فائدہ مند ہے ‘اگر اسے کیپیٹلائز کیا جائے تو پاکستان کے جو فارن ریزرو ہیں انہیں بڑھایا جا سکتا ہے اور اسکے بڑھنے سے انویسٹرز کمیونٹی میں جو اعتماد آئے گا اس کا اچھا رسپانس ہو گا۔ اس وقت ملک میں 2 سیکٹر کمزور ہیں ان میں ایک انرجی سیکٹر ہے جہاں بہت سے مسائل ہیں جسے وزیر اعظم نے بھی تسلیم کیا کہ یہ شعبہ کمزور ہے ۔دوسرا ریونیو کی کلیکشن ہے، اسے کتنا بڑھانا ہے اگر اکانومی اسٹیبل ہو رہی ہے‘ آگے بڑھتی نظر آ رہی ہے‘ ریونیو بڑھانے پر زور دینا ہو گا۔ماہرین کے مطابق اکانومی کی سرگرمیاں بڑھیں گی ۔آئی ایم ایف کا پلان آئے گا جب لوگ زیادہ کمائیں گے تو ٹیکس بھی زیادہ آئے گا، دوسرا انرجی سیکٹر میں جو کام ہونا چاہئے تھا ،وہ سست روی کا شکار ہے ،ایک ایسا سیکٹر ہے جو اکانومی کو مثبت سے منفی کر سکتا ہے یہ جو 23 سو ارب روپے کا سر کولر ڈیٹ ہے ،یہ ایک طرح سے سبسڈی ہے ۔ہر مہینے 50 ارب روپے کی سبسڈی ہے جو ہم دئیے جا رہے ہیں اور یہ سر کولر ڈیٹ میں پارک ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔کچھ تو فرق پڑے گا، جب آئی ایم ایف سے بات ہو گی ۔حکومت اور پاور انڈسٹری کو سختی کرنی پڑے گی ورنہ یہ جو ہم ریکوری دیکھ رہے ہیں اگر انرجی سیکٹر پر کام نہیں ہوا تو یہ سیکٹر معیشت کی بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے گا۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ناقابل فہم ہے۔آسان الفاظ میں سمجھ لیجیے کہ بجلی کا نرخ نامہ پیچیدہ ہونے کے باعث عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتا،جب بجلی کے بل عوام کے ہاتھوں میں آتا ہے تو انھیں زورکا جھٹکا لگتا ہے ۔یونٹ بلنگ کا نظام انتہائی پیچیدہ اورسمجھ سے بالاتر ہے،اس کے مختلف سلیب ہیں، جوکسی کی سمجھ میں نہیں آتے۔ وزیر اعظم عمران خان نے خود یہ اعتراف کیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج انرجی سیکٹر کاہے جو انہیں سوچ کر رات کو نیند نہیں آتی وہ بجلی کا ایشو ہے ۔بجلی کے سیکٹر میں اتنی پیچیدہ چیزیں ہیں‘ عوام کو سستی بجلی دینا چاہتے ہیں اور سرکو لر ڈیٹ ختم کرنا چاہتے ہیں۔عمران خان گڈگورننس کے ذریعے پاکستان کو ترقی کی منازل طے کروانا چاہتے ہیں،جوکہ خوش آئند امر ہے۔