مجھے نہیں معلوم کہ شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ جلیلہ سنبھالنے سے پہلے کوئی تیاری کی تھی لیکن انہیں یہ بات تو ایک ماہ پہلے ہی پتہ چل گئی تھی کہ حالات ان کیلئے بتدریج سازگار ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے سب سے بڑے اتحادی آصف زرداری اور ان کے جانشین بلاول بھٹو زرداری برملا کئی بار یہ بات دہراچکے تھے کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو ہمارا وزیراعظم شہباز شریف ہوگا۔ کسی ذہین طالب علم کی طرح جو امتحان سے ذرا پہلے دن رات ایک کرکے خود کو آنے والے امتحان کیلئے تیار کرتا ہے۔ کیا شہباز شریف نے اپنی بہت جلد سب کچھ دیکھ لینے والی آنکھوں اور آنے والے حالات کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اپنی ذہانت سے اپنی ترجیحات اور حکمت عملی تیار کرلی تھی کہ آنے والے امتحان میں کچھ نیا کرکے دکھاسکیں یا یہ کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انہیں تالاب میں دھکا کس نے دیا۔ یقینا ایسا نہیں تھا۔لیکن اگر انہیں پاکستان کے حالات کی سنگینی کا علم ہے۔ وہ وکٹ پر آئے تو یہ طے تھا کہ انہوں نے چیلنج قبول کرلیا ہے۔ وہ اس سے پہلے اقتدار کے ایوانوں سے مانوس تھے۔ ان کے بڑے بھائی اس ملک کے تین بار وزیراعظم رہ چکے تھے۔ انہوں نے خود چار بار صوبہ پنجاب پر حکومت کی تھی۔ اسی لئے شاید یہ ذمہ داری سنبھالتے ہوئے انہیں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بہت زیادہ تو نہیں لیکن انہیں اقتصادیات اور امور خزانہ کے بنیادی اسرار و رموز سیکھنے کی ضرورت ضرور تھی لیکن انہیں یہ علم ضرور ہوگیا تھا کہ ان کے لئے یہ کوئی بہت پیچیدہ سائنس نہیں ہے۔ ظاہر ہے عمران خان کی چار سالہ دور حکومت کے بعد ملک کی جو معاشی صورتحال تھی ہر تعلیم یافتہ اور سوچنے والا پاکستانی ملک کی پریشانیوں سے آشنا تھا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اپریل کی 9 تاریخ کو ملک کی اقتصادی حالت دیوالیہ پن کے نزدیک تھی۔ ہم اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے ذرا پرے ہٹ کر بات کریں تو مہنگائی‘ بیروزگاری‘ افراط زر‘ کساد بازاری‘ کرپشن اور اقربا پروری نے دن بدن زیادہ مضبوطی سے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ نا صرف عمران خان کے دور میں بلکہ پچھلے ادوار میں بھی موجود تھی کہ بڑے منصوبوں کی مکمل تخمینے سے بہت زیادہ رقم سے مکمل کی گئی۔ گو کہ یہ منصوبے کم لاگت سے مکمل ہوسکتے تھے‘ لیکن باقی پیسے جیبوں میں گئے۔ میں امریکہ کے سابق صدر رچرڈ نکسن کی بائیو گرافی سے چند اقتباس نقل کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کسی بھی امریکی صدر کیلئے سب سے اہم فیصلہ کن اور مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب وہ اپنے وزیر اور مشیر منتخب کرتا ہے۔ درحقیقت یہ لوگ وائٹ ہاؤس کیلئے آنکھیں اور کان کا کام کرتے ہیں۔ہمارے ہاں سارے کام مفادات کے تحت ہوتے ہیں۔ جمہوریت اور انتخابات کا طریقہ کار اور پھر اس میں فیوڈل سسٹم‘ برادری سسٹم‘ سیاسی مفادات‘ ملک کے طاقتور حلقوں کی آشیر باد‘ الیکٹ ایبل کی چودہراہٹ ہے۔ ملک میں اتنی زیادہ کرپشن کا باعث حکومت کی اعلیٰ سطح پر سیاستدانوں‘ افسر شاہی اور بینکاروں کے درمیان میل جول رہتا ہے۔ کسی وزارت کے ادارے یا محکمے میں کسی قسم کی بصیرت یا منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ سمندر میں ایک ٹوٹے پھوٹے بغیر پتوار کے جہاز کی طرح معاشی طور پر پاکستان ادھر ادھر لڑھک رہا ہے۔ عمران خان کے دور میں کچھ زیادہ ہی تھا۔ وہ پونے چار سال حکومت کرنے اورلوگوں کو ایک کروڑ ملازمتیں اور 50 لاکھ گھر دینے کا وعدہ کرکے حقیقی آزادی کا نعرہ لگاکر پھرمیدان میں ہیں۔ یہ سیاسی لیڈروں کی فریب کاری ہے۔ کبھی کوئی روٹی کپڑا مکان کی بات کرتا ہے۔ کبھی کوئی سائیکل چلاکر سادگی کا پرچار کرتا ہے۔ ذرا دیکھ لیں 75 سال کے بعد آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ تمام سماجی علامات صحت‘ تعلیم اور غربت شرمناک حد تک ہماری ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سرکاری اداروں‘ کارپوریشنوں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بلا امتیازی‘ خوشامدی اور سیاسی لوگ بھرے پڑے ہیں۔ کوئی منصوبہ نہیں‘ کوئی معیار نہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانا ہے۔ صحیح سمت موڑنا ہے۔ اسے چلانے کیلئے کچھ ذہین اور ٹیکنو کریٹس رکھنے ہیں۔ شہباز شریف نے جن حالات میں عنان اقتدار سنبھالا وہ انتہائی مایوس کن ہے۔ اس وقت ملک کیلئے خطرات موجود ہیں۔ جس قسم کا سیاسی سرکس چل رہا ہے جس قسم کی ہڑبونگ مچی ہوئی ہے۔ اقتدار کیلئے چھینا جھپٹی کا کھیل جاری ہے۔ جب ملک کو محفوظ کرنے‘ مضبوط رکھنے‘ اس کی وحدت کو قائم‘ اس کی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کا معاملہ ہو تو مجھے یہاں ابراہم لنکن کی یہ بات یاد آرہی ہے۔ انہوں نے ایک مرحلے پر کہا تھا۔ ’’میری آئین کو محفوظ رکھنے کی قسم نے مجھ پر ذمہ داری عائد کی کہ میں قوم اور حکومت کا جس کا بنیادی قانون آئین ہے ہر قابل استعمال وسیلے کے ذریعے تحفظ کروں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ملک ختم ہوجائے اور آئین سلامت رہے۔ بنیادی قانون کے تحت اصولاً زندگی اور اعضا کی حفاظت ہونی چاہئے‘ لیکن اکثر زندگی بچانے کیلئے کسی عضو کا جدا کرنا ضروری ہوتا ہے‘ لیکن کبھی عضو کو بچانے کیلئے زندگی قربان نہیں کی جاتی۔‘‘ابراہم لنکن جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک سب سے اہم ہے۔ اب شہباز شریف قوم کو بتائئیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ مسائل کیا ہیں۔ کھل کر بتائیں کیا کچھڑی پک رہی ہے۔ قوم کو بتائیں کہ کس قسم کے دباؤ ہیں اور سب سے بنیادی بات یہ بتائیں کہ ملک کو اس بحران سے نکالنے کیلئے ان کے پاس کیا پلان ہے۔ وہ قوم کو بتائیں کہ ان کے پاس اگر جامع پروگرام ہے تو وہ اسے کتنے وقت میں عملدرآمد کراسکیں گے۔ اقتدار اتنا ضروری نہیں۔ پاکستان سب سے اہم ہے۔ کھل کر بات کریں‘ سچائی کے ساتھ پھر سب مل بیٹھیں۔ اداروں کو بھی بٹھائیں۔ کوئی حل تلاش کریں۔ خواہ مخواہ شور شرابے اور جلسے جلوسوں کی سیاست کچھ عرصے کیلئے ختم کریں۔ کچھ ایسا کردکھائیں جو لو گوں کو نظر آئے۔ پیٹرول کی قیمت کیوں بڑھائی۔ اس سے معیشت پر کیا اثرات پڑیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ آپ کے معاملات کہاں تک پہنچے۔ پھر یاد رکھیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی تدبیر نہیں۔ آپ کے پاس کوئی فارمولا نہیں کہ قوم کو اس دلدل سے نکالیں تو پھر فی الفور حکومت چھوڑ دیں۔ اس ملک کو جب اس مشکل میں پھنسادیا ہے تو پھر اس سے نکالنے کی ذمہ داری بھی سب پر آتی ہے جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ عمران خان بیٹھتے ہیں تو انہیں بھی اپنے ساتھ بٹھائیں‘ یہ ملک رہے گا تو سیاست بھی ہوگی اور آپ لوگوں کی یہ سیاسی پھلجڑیاں بھی جلتی بجھتی رہیں گی۔ خدارا کچھ خیال کیجئے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔ ٭٭٭٭