وزیر اطلاعات فواد چودھری وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹر کے مبینہ طور پر ناجائز استعمال پرکیس کے حوالے سے نیب پر سخت برہم تھے، ان کا کہنا تھا کہ یہ تو وزیراعظم کی توہین ہے۔ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر اپوزیشن لیڈر نیب کا سامنا کر سکتا ہے تو وزیراعظم کیوں نہیں؟ بہت سادہ لوگ ہیں جنہوں نے وزیراعظم کی توہین کا کہا ہے۔ ان کے مطابق یہ وزیراعظم کی توہین نہیں بلکہ عزت افزائی ہے، ان کی توقیر ہوئی اور قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا دعویٰ ہے کہ ان کا کسی گروپ یا حکومت سے تعلق نہیں اور وہ کسی دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے۔ غالباً تحریک انصاف کی حکومت کو مخاطب کر تے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نیب کو برا بھلا کہنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اور عمران خان نے خود ملک میں سب کے لیے احتساب کا نعرہ لگایا تھا۔ چیئرمین نیب کے غیر جانبداری کے دعوؤں پر اپوزیشن کو تو پہلے ہی یقین نہیں تھا، اب شکایت کنندگان میں حکومت بھی شامل ہو گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ بھی اکثر نیب کی ہتھ چھٹ پالیسیوں کی شکایت کرتی رہتی ہے۔ نیب کے چیئرمین ٹھیک کہتے ہونگے کہ وہ کسی کے دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے اور کسی سے نہیں ڈرتے لیکن کیا وجہ ہے تمام فریق ہی ان سے ناراض رہتے ہیں۔ دراصل جوابدہی کے معاملے میں ماضی میں اتنی کھلی چھوٹ رہی کہ اب جس پر بھی ہاتھ ڈالا جائے وہی شکایت کرتا ہے۔ اگر انصاف ہو رہا ہے تو ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے لیکن بعض معاملات میں لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ جب دو ہرے معیا ر کی بات کی جاتی ہے تو بعض تضادات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان کا کیس اس ضمن میں خاصا دلچسپ ہے، جس انداز سے حکومتی ترجمان تمام اپو زیشن کو چوراچکے کہتے ہیں اسی انداز میں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان محترمہ مریم اورنگزیب نے الزام عائد کیا ہے کہ علیمہ باجی دراصل عمران خان کی ناجائز دولت کی بے نامی دار ہیں ان کے خلاف نیب کارروائی کیوں نہیں کرتا؟۔ چینل 92 پر میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے‘ میں وزیراعظم کے احتساب کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ علیمہ خان پر وہ معیار منطبق نہیں کیا جا سکتا جو شریف برادران پر کیا جا رہا ہے کیونکہ محترمہ علیمہ خان سیاسی اور نہ ہی پبلک آفس ہولڈر ہیں۔ فواد چودھری بھی کہتے ہیں کہ علیمہ آپا وزیراعظم نہیں ہیں۔ یہ بات اصولی طور پر درست ہے تو اس کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے۔ شاید چوہدری صاحب بھول جاتے ہیںکہ وزیراعظم کی بہن ہونے کے ناتے سے وہ جوابدہ ضرور ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کے صاحبزادوں حسن، حسین اور بیٹی مریم نواز جوسیاسی عہدیدار نہیں ہیں بلکہ حسن اور حسین تو سرے سے سیاست میں ہی نہیں ہیں انھیںکیوں نیب نے ملزم بنایا ہوا ہے جبکہ مریم نواز کوایون فیلڈ ریفرنس میں 7سال قید اور بیس لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی جا چکی ہے اور وہ ضمانت پر رہا ہیں۔ شہزاداکبر کاکہنا تھا کہ حسن اور حسین کا کیس مختلف ہے کیونکہ یہ دونوں نواز شریف کے بے نامی دار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے وزیر سعید غنی نے مطالبہ کیا ہے کہ علیمہ خان کو ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالا جارہا۔ یہ مطالبہ اس انکشاف کے بعد کیا گیا ہے کہ ان کی امریکہ میں بھی 45 کروڑ روپے مالیت کی جائیداد نکل آئی ہے، علاوہ ازیں علیم خان، بابر اعوان، پرویز خٹک، محمود خان سے تو نیب بڑے پیار سے پوچھ گچھ کرتا ہے جبکہ شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں بلا کر آشیانہ سکینڈل میں دھر لیا جاتا ہے۔ اب لگتا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں آصف زرداری کی بھی باری آنے والی ہے۔ نیب کا کوئی یکساں معیار نہیں ہے وہ کسی بھی شخص کا نوے روز تک کا ریمانڈ لے کرگرفتار کرسکتا ہے۔ شہبازشریف کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا، انھیں کئی روز تک ریمانڈ پر رکھنے کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیاگیا۔ نیب کا قانون جسے قانون کہنا زیادتی ہے ایک آمر مطلق جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ان کے ذہن کی اختراع تھی۔ اگر اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی اس قانون سے تنگ ہیں تو وہ مل کر آزاد، منصفانہ اور دوٹوک احتساب کا قانون کیوں نہیں لے کر آتے؟۔ مسلم لیگ (ن) کا تو کہنا ہے کہ ہمیں احتساب کے نئے قانون سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہماری لیڈر شپ کے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو چکا اب ہم دیکھیں گے جب تحریک انصاف کی باری آئے گی، تو یہ رویہ محل نظر ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے اپنے ادوار میں چارٹر آف ڈیموکریسی میں نئے احتساب قانون پر اتفاق رائے کے باوجود کوئی عملی اقدام نہیں کیا کیونکہ دونوں کا خیال یہی تھا کہ مخالفین کے خلاف استعمال ہو سکے گا، اس طرح صیاد خود اپنے دام میں آ گیا۔ 172 افراد کو منی لانڈرنگ کیس میں ای سی ایل میں ڈالنے کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ سپریم کورٹ نے بلاول بھٹو، مراد علی شاہ اور فاروق ایچ نائیک کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی سفارش کی ہے لیکن وفاقی کابینہ نے یہ عذر پیش کر کے کہ ابھی سپریم کورٹ کا تحریری حکمنامہ نہیں ملا، معاملہ کھو کھاتے ڈال دیا ہے اور ساتھ ہی یہ فیلر چھوڑا ہے کہ ہم اس معاملے میں نظرثانی کی درخواست بھی دائر سکتے ہیں گویا کہ بنیادی بات یہ ہوئی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی سپرٹ کو کابینہ نے سبوتاژ کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اگر کسی معاملے میں ملوث ہیں تو انھیں کلین چٹ دی جا رہی ہے۔ ان کا محض یہ کہنا تھا کہ ایک وزیراعلیٰ کو فلائٹ رسک قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔ البتہ عدالت نے بلاول بھٹو کو قریباً کلین چٹ دے دی ہے۔ طرفہ تماشا ہے کہ اس مقصد کے لیے کابینہ کی کمیٹی جس کا کام ای سی ایل پر نظرثانی کرنا ہے وہ کچھ اور کہہ رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان جن کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان بھی ہے انھوں نے اس معاملے میں ایک اور یوٹرن لے لیا ہے۔ دوسری طرف حکومتی ترجمان جوش خطابت میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان جنہیں خود کو صوبائی معاملات تک محدود رکھنا چاہیے اس قسم کی بڑھکیں لگا رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی جیسے سیاستدانوں کو بھی جیل پہنچا دیں گے۔ گویا کہ حکمران ایسے سیاستدانوں کو جن کے خلاف نیب کا مقدمہ نہیں ہے بھی جیل بھجوانے کی بھڑکیں مار رہے ہیں۔ اس قسم کی تیز زبانی خواہ مخواہ ملک میں سیاسی ٹمپریچر کو بڑھا رہی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور صوبائی وزیر اطلاعات فیاض چوہان صحافیوں کو بھی اپنا کام سکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور انھیں بتاتے رہتے ہیں کہ ضابطہ اخلاق کیا ہوتا ہے۔ بہتر تو یہ ہو گا کہ بعداز خرابی بسیار معافی مانگنے کے بجائے یہ خود بھی بولنے سے پہلے کسی ضابطہ اخلاق کی پاسداری کر یں، محض بڑھک بازی سے سب کچھ ٹھیک نہیں ہو گا اس کے لیے کچھ حسن کارکردگی کی بھی ضرورت ہے۔