کاش کہ ہمارے ملک میں بھی مہاتیر محمد جیسا کوئی شخص وزیرا عظم منتخب ہو سکتا ۔ایسا ہی ایک شخص پچھلے تیس برس سے اقتدار پہ قابض آصف زرداری اور نواز شریف جیسے لٹیروں سے قوم کو چھٹکارا دلا کر ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ زرداریوں اور شریفوں کو پیسے سے عشق کی بیماری ہے جو لاعلاج ہے۔ یہی بیماری انھیں انیس سو اٹھاسی کے بعد سے ہر الیکشن میں حصہ لینے پہ مجبور کررہی ہے۔ یہ لوگ عوام کے سامنے خود کو ان کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کر کے انھیں دھوکہ دیتے ہیں ۔ ان کی بینک اکاؤنٹس پیسوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن پھر بھی یہ لوگ ہمیشہ مزید مال بٹورنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو تو اب ہم میں نہیں رہی ہیں لیکن ان کے شوہر آصف زرداری اور ان کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف بھی اپنی آخری سانس تک عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار کو زیادہ سے زیادہ بار ہتھیانے کی کوشش جاری رکھیں گے۔ یہ دونوں جیل بھی جا چکے ہیں، مقدمات کا بھی سامنا کر چکے ہیں، مفرور بھی رہے ہیں اور جلا وطنی بھی گزار چکے ہیں لیکن پھر بھی بار بار لوٹ آتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی لالچ کی کوئی حد نہیں۔اس قوم کا بچا کچھا مال دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کو یہ ان چور ڈاکوؤں کی مانند بار بار واپس آتے ہیں جنھیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کچھ ایسا تو باقی نہیں بچا جو انہیں لوٹ لینا چاہئے تھا۔ ذرا سوچئے کہ پی پی پی اور پی ایم ایل ( ن) کی آمد کے بعد سے جمہوریت نے اس ملک کو کیا تحفہ دیا ہے؟غربت، کرپشن ، سرمائے کا فرار، انسانی ترقی کی دگرگوں حالت، آبادی میں اشد اضافہ اور نا خواندگی! ان سب چیزوں کے علاوہ ہماری قوم کے پاس دکھانے کے لئے اور آخر ہے کیا؟ ہم آصف زرداری اور میاں نواز شریف سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا انہوں نے ڈاکٹر مہاتیر کی وہ تقریر سنی یا پڑھی ہے جو انہوں نے ملائیشیا کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد کی تھی؟ شاید نہ سنی ہو کیونکہ یہ دونوں اپنی گندی سیاست میں ہی بہت مصروف رہتے ہیں، اور یہی تو وہ چیز ہے کہ جس میں اتنے سالوں کے تجربے کی وجہ سے انہوں نے مہارت حاصل کی ہوئی ہے۔ ہم خود ہی انھیں بتا دیتے ہیں کہ مہاتیر محمد نے کیا کہا تھا، ان کا کہنا تھا ’’جب میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو مجھے میرے وہ ہم وطن دکھائی دیتے ہیں جن کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا ہے۔ مجھے وہ نوجوان نسل دکھائی دیتی ہے جن کے حقوق شیطانی ترغیبات کے تحت لالچ میں مبتلا لوگوں نے غصب کر رکھے ہیں۔پھر مجھے لگتا ہے کہ مجھے کچھ کرنا پڑے گا۔ میں خاموش رہنے والوں میں سے نہیں ہوں کہ بس ہاتھ باندھ کر ان لوگوں کی غلط کاریوں کا بس نظارہ کرتا رہوں جن میں اپنے کرتوتوں پہ کوئی شرم تک پیدا نہیں ہوتی، نہ کوئی احساس جرم ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے عوام کے حقوق کے تحفظ اور مجرموں کو پکڑنے کا موقع دیا ۔میں اپنی زندگی کے اختتام کو پہنچ چکا ہوں۔ میں زندگی کا یہ باقی حصہ خدا تعالیٰ کی فرماں برداری اور اس کے آگے جھکنے میں گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘ یہاں ہم سالوں پرانے ایک کالم سے ایک جملہ لکھنا چاہیں گے جس میں کچھ اسی قسم کی سوچ کے ساتھ آصف زرداری کو ایک مشورہ دیا گیا تھا کہ’’ اپنی عمر کا دو تہائی حصہ وہ گزار چکے ہیں۔ خالق حقیقی سے ملنے کا وقت قریب آ رہا ہے ‘‘ اور اگر انھیں سمجھادیا جائے کہ اب بہتر یہی ہو گا کہ وہ ’’صراط مستقیم اختیار کر لیں‘‘ اور اپنی نجات کی دعا ئیں مانگیں۔ ان کے بینکوں میں اس قدر پیسہ موجود ہے کہ ان کی دس نسلیں آرام سے اسے کھا سکتی ہیں، لیکن زرداری صاحب ایک ایسے شخص ہیں کہ جس کی کرپشن کی کوئی نظیر ہی نہیں۔ان کی کرپشن کی داستانیں اخباروں میں شائع ہوتی رہی ہیں لیکن اب وہ ایک بار پھر دانت نکالے قصر صدارت یا پی ایم ہاؤس منتقل ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پیسے سے نواز شریف کا عشق بھی کچھ کم نہیں۔ میاں صاحب، آپ کو چیف جسٹس آف پاکستان میں چیخنا چلانا بند کر دینا چاہئے۔آپ کو اپنی اہلیہ کے سرہانے ہونا چاہئے جو اس وقت لندن کے کسی ہسپتال پربیمار پڑی ہوئی ہیں۔احتساب عدالت آپ کو ان کے پاس جانے کی اجازت نہیں دے گی کیونکہ آپ کے خلاف مقدموں کی سماعت جاری ہے۔ تاہم آپ نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پہ اپنی اہلیہ کے پاس جانے کے لئے عدالت کو قائل کرنے کی کما حقہ کوشش بھی تو نہیں کی۔’’زندگی جب ختم ہونے لگتی ہے تو اس وقت افسوس یہ نہیں ہوتا کہ کاش ہم نے ایک اور امتحان پاس کر لیا ہوتا، ایک اور مقدمہ جیت لیا ہوتا یا ایک اور سودا طے کر لیتے۔آپ کا افسوس اس وقت کا ہوگا جو آپ اپنے ماں باپ، جیون ساتھی، اپنے بچوں اور دوستوں کے ساتھ نہیں گزار پائے۔‘‘ یہ باربرا بش کا قول ہے جو ایک دو مہینے پہلے دنیائے فانی سے کوچ کر گئی ہیں۔