کمیٹی کا مطلب سمجھتے ہیں آپ؟ جی نہیں۔ آپ غلط سمجھے ۔ کمیٹی دو الفاظ کا مجموعہ ہے یعنی کام اور مٹی۔ حکومت نے کب کسی کام کو مٹی کرنا ہو یا مٹی میں ملانا ہو تو اسے ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا جاتا ہے پھر بھی اگر کسر رہ جائے یعنی سب کام پوری طرح مٹی نہ ہو تو اسے کسی سب کمیٹی کے سپرد کر دیا جاتا ے جو سب کام مٹی کر دیتی ہے یعنی مٹی میں ملا دیتی ہے۔ کام مٹی کرنے کے لئے کمیٹی یا سب کمیٹی کی میٹنگ بلائی جاتی ہے اگر کام زیادہ سخت جان ہو تو اوپر تلے کئی میٹنگیں بلانا پڑتی ہیں ۔ ان میٹنگوں میں کام کو مٹی میںملانے کے لئے کیا طریق کار اختیار کیا جاتا ہے اسے جاننے کے لئے آپ کو غیر سرکاری طور پر (یعنی چھپ چھپا کر ) ایک میٹنگ Attend کرنا پڑے گی۔ گھبرائیے مت۔ ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔ آئیے ہمارے ساتھ۔ یہ محکمہ پولیس ہے۔ اس ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں ایک سب کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے۔ اس کمیٹی کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ لاہور شہر میں ٹریفک کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے تجاویز پیش کرے۔ ایک ایس پی اس سب کمیٹی کے سربرا ہ ہیں جبکہ باقی سب معزز ممبرز ہیں۔ " آپ کو پتہ چل ہی گیا ہوگا" ایس پی صاحب چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہتے ہیں۔ " کہ اس سب کمیٹی کی تشکیل کا مقصد ٹریفک کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے سفارشات مرتب کرنا ہے۔ چائے مل گئی آپ سب کو؟" ـ" گُڈ ۔ چائے مل گئی۔ لاہور میں ٹریفک کنٹرول کے بارے میں چند تجاویز چاہئیں تاکہ سفارشات مرتب کر کے اُوپر بھیج دی جائیں۔" " اُو پر کہاں؟ اللہ میاں کے پاس؟" " یہی سمجھ لیں۔ شہر میں ٹریفک کا جو حال ہو گیا ہے اُسے اللہ ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔" " خیر ۔ یہ تو آپ کا خیال ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں اِس سلسلے میں چند مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔" " آپ فرمائیں۔ مشکل فیصلے کرنا کون سا مشکل کام ہے۔" " تو سَر ، ایک قانون تو یہ بنانا پڑے گا کہ ایک دن طاق نمبر والی کاریں گھر سے نکلیں اور دوسرے دن جفت نمبر والی ۔ اِس طرح کاروں کی تعداد آدھی ہو جائے گی ۔ یہی قانون موٹر سائیکلوں کے بارے میں ہونا چاہیے۔ ــ" یہ سن کر ایس پی صاحب مسکراتے ہوئے گھنٹی بجاتے ہیں۔ ایک کانسٹیبل اندر آتا ہے۔ اسے بسکٹ کا ڈبہ لانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ " ٹریفک کا مسئلہ اتنا سیریس ہوگیا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں" ایک ممبر نے کہا۔ " کل میں دفتر سے آرہا تھا۔ راستے میں۔۔۔۔ـ" اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ ایس پی صاحب نے ریسیور اٹھایا " ہیلو ! ہاں بول رہا ہوں ۔ جیپ بجھوائی تو ہے ۔۔۔۔ دوسر ی گاڑی ؟ اچھا ابھی بجھواتا ہوں۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔ " فون رکھ کر ایس پی صاحب نے گھنٹی دی۔ کانسٹیبل اندر آیا۔ "ڈرائیور سے کہو گاڑی گھر لے جائے۔ ڈھائی بجے تک واپس آجائے اور ہاں کسی کو اندر مت بھیجنا۔ میٹنگ ہو رہی ہے۔" " ٹھیک ہے سر" کانسٹیبل باہر چلا گیا۔ " ہاں تو آپ حضرات کے خیال میں ہم ٹریفک کی بہتری کے لئے کیا کرسکتے ہیں ؟" ایس پی صاحب نے پوچھا۔ " ہم کیا خاک کر سکتے ہیں؟" یہ TEPA اور ٹیلی فون والوں نے جو سڑکوں کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ جگہ جگہ موت کے کنویں اور شملہ پہاڑیاں بنا دی ہیں۔ ان کی موجودگی میں ٹریفک کا ستیاناس تو ہونا ہی تھا۔" دوسرے ممبر نے کہا " یہ TEPA ہے کیا بلا؟ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ " پہلے ممبر نے کہا۔ " میں بتاتا ہوں" تیسرے ممبر نے کہا۔ " یہ TEPA دراصل " مٹی پا" ہے ۔ "م" کہیں مٹی میں دب گئی ہے۔ باقی " ٹی پا" رہ گیا ہے۔ اس کا کام تمام سڑکوں پر مٹی پانا ہے۔" یہ سن کر سب نے اتفاق رائے سے ایک زبردست قہقہہ لگایا (پندرہ منٹ تک اسی قسم کی ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ درمیان میں تین بار فون پر ایس پی صاحب نے خوش گپیاں کی ہیں۔) "ہاں تو بات ہو رہی تھی رکشا ڈرائیوروں کی۔" ـایس پی صاحب نے کہا۔ " رکشا ڈرائیوروں کو اللہ سمجھے۔ خدا کا خوف تو ان میں ہے ہی نہیں۔" " زندگی میں ایک بار مجھے رکشے میں بیٹھنا پڑ گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ـ" " آپ کوئی تجویز دیں" ایس پی نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ " لکھیں۔ میں بتاتا ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منی بس کے ڈرائیوروں میں خوفِ خدا پیدا کیا جائے۔" " یہ سن کر ایس پی نے کہا " یہ بہت مشکل کام ہے۔ آپ کوئی ٹھوس تجویز دیں۔" " ایک تجویز میرے ذہن میں آئی ہے" ایک ممبر نے کہا " تمام سڑکوں پر ٹریفک ون وے کر دی جائے۔" (اتنے میں پھر فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ دس منٹ فون پر گپ شپ ہوتی ہے( " ون وے والی تجویز تو ٹھیک ہے۔ بٹ صاحب آپ کوئی تجویز دیں۔" "تجویز۔۔۔۔۔۔میری۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔یہی ہے کہ سڑکوں پر ٹریفک کا رش کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ لاہور میں پچاس ساٹھ کے قریب پُل اور انڈر پاس بنائے جائیں۔" " بہت اچھی تجویز ہے آپ کی ۔ کیا وقت ہوا ہے؟" " تین بج گئے ہیں۔" "تو پھر آج کی میٹنگ برخاست کرتے ہیں۔ اب اس کمیٹی کی اگلی میٹنگ بدھ کو بارہ بجے ہوگی۔" " ٹھیک ہے۔" سب ممبرز ایس پی سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔