اخباری رپورٹس کے مطابق نیب راولپنڈی نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں وفاقی وزراء اور اراکین کابینہ کی حیثیت سے کام کرنے والی شخصیات کے نام گاڑیوں‘ جائیداد اور اکائونٹس کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔جن شخصیات کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں ان میں غلام سرور خان‘ مراد سعید‘ پرویز خٹک‘ زبیدہ جلال‘ حماد اظہر‘ شفقت محمود‘ شیری مزاری‘ خالد مقبول صدیقی‘ بریگیڈیئر(ر) اعجاز شاہ‘ علی امین گنڈا پور‘ فروغ نسیم ‘ خسرو بختیار‘ اسد عمر‘ عمر ایوب‘ محمد میاں سومرو‘ فواد چوہدری سمیت متعدد کے نام شامل ہیں۔نیب نے تمام صوبوں کے سیکرٹری ایکسائز کو خط لکھا ہے کہ ان شخصیات سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں۔ حال ہی میں قومی احتساب ترمیمی بل 2023ء روبہ عمل آیا ہے۔ترمیمی ایکٹ 2023ء میں 17شقوں میں ترمیم کی گئی ہے۔اس ترمیمی ایکٹ کے تحت چیئرمین نیب کو مزید اختیارات دیے گئے ہیں۔ ایسی تمام زیر التوا انکوائریاں جنہیں سب سیکشن 3کے تحت ٹرانسفر کرنا مقصود ہو ان پر چیئرمین نیب غور کریں گے۔چیئرمین نیب کو کسی اور قانون کے تحت شروع انکوائریاں بند کرنے کا اختیار ہو گا۔چیئرمین نیب ایسی تمام انکوائریاں متعلقہ ایجنسی‘ ادارے یا اتھارٹی کو بھیجنے کا مجاز ہو گا۔ترمیمی ایکٹ 2023ء میں کہا گیا ہے کہ نیب انکوائری میں مطمئن نہ ہو تو چیئرمین متعلقہ عدالت کو کیس ختم کرنے اور ملزم کی رہائی کے لئے منظوری کی غرض سے بھیجنے کا مجاز ہو گا۔ترمیم کے بعد قانون بنا ہے کہ نیب عدالت سے مقدمے کی واپسی پر متعلقہ محکمہ یا اتھارٹی اپنے قوانین کے تحت مقدمہ چلا سکے گی۔29مئی 2023ء کو یہ قانون نافذ ہوا ہے۔گویا ان ترامیم کی روشنی میں نیب کی جانب سے پی ٹی آئی دور کے اراکین کابینہ کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کرنے کے معاملے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اس ترمیمی ایکٹ کے بعد نیب چیئرمین کا کردار اس لحاظ سے اہم ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے خلاف انکوائری یا مقدمے کے متعلق کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں احتساب کا عمل اس لحاظ سے متنازع رہا ہے کہ کئی برس تک کسی کے خلاف مقدمہ چلتا ہے‘ عدالت میں پیشیاں ہوتی ہیں۔ایک طویل اذیت سے ملزم اور اس کا خاندان گزرتا ہے۔سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے وکلاء کی فیس‘ سکیورٹی انتظامات اور دیگر اخراجات کی مد میں خرچ ہوتے ہیں۔المیہ یہ کہ آخر پر نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ حکومت تبدیل ہوتی ہے اور سارے الزامات واپس لے لئے جاتے ہیں‘ قانون تبدیل کر کے ملزمان کو چھوڑنے کا راستہ بنایا جاتا ہے یا پھر رہا کر دیے جاتے ہیں۔اس طرح کا احتساب جنرل پرویز مشرف کے دور میں دیکھا گیا۔اس احتساب کے ذریعے مسلم لیگ ن کو توڑ کر مسلم لیگ ق بنائی گئی۔ پیپلز پارٹی کو توڑ کر پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی۔جو ان نئی جماعتوں میں شامل ہوئے ان کے خلاف قومی احتساب بیورو کی کارروائیاں بند ہو گئیں جو راضی نہ ہوئے انہیں سیاست میں غیر فعال کر دیا گیا۔2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ احتساب کے نام پر ہونے والے دھوکے کو بند کیا۔اس دور میں لیکن بدعنوانی کا جو سلسلہ جاری رہا اسے روکنے کا کوئی انتظام نہ ہوا۔مسلم لیگ نواز کا دور اقتدار آیا تو اپنی سابق اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے کئی وزراء اور اہم عہدیداروں کے خلاف مقدمات درج کرا دیے۔ 2011ء میں کئی اہم سیاست دان تحریک انصاف کی طرف مائل ہونے لگے۔کہا جانے لگا کہ کوئی قوت انہیں پی ٹی آئی کی طرف دھکیل رہی ہے۔2018ء میں تحریک انصاف اقتدار میں آ گئی۔اسے ’’احتساب بلا امتیاز‘‘ کے نعرے پر عمل کرنے کا مینڈیٹ ملا تھا۔اس احتساب کو اگر روک کر سیاسی مکالمہ اور ملکی ترقی پر توجہ دی جاتی تو قوم کے لئے بہتر رہتا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ قوم احتساب نہیں چاہتی۔اصل مشکل یہ ہے کہ احتساب کا جو عمل شروع ہوتا ہے وہ آئین و قانون کے تابع رہنے کی بجائے سیاسی مفادات کے تابع آ جاتا ہے۔احتساب کو بدعنوانی ختم کرنے کی بجائے سیاسی انتقام کا ذریعہ بنایا جاتا رہا ہے۔اس سے وقتی طور پر کچھ قوتوں کو ضرور فائد ہوا ہو گا لیکن سچ یہ ہے کہ اس طرح کے احتساب نے سیاست کو روایتی تحمل ‘ برداشت اور مکالمہ سے محروم کر کے دشمنی کا میدان بنا دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے جن اراکین کابینہ کے اثاثوں کی تفصیلات نیب نے طلب کی ہیں ان میں سے بیشتر پارٹی یا سیاست کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ جو لوگ ابھی تک پی ٹی آئی کا حصہ ہیں وہ حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ان حالات میں کوئی درست اور جائز اقدام بھی متنازع ثابت ہو سکتا ہے۔بہتر ہو کہ حکومت کوئی ایسا شفاف نظام ترتیب دیدے جو سب کے لئے قابل قبول ہو اور جس کی منظوری کے بعد مقدمات کا اندراج ہو سکے۔ احتساب کا عمل غیر متنازع ہونا چاہیے۔ پاکستان میں کرپشن ایک بڑا ناسور ہے۔ حکمران طبقات نے ملک کو عشروں تک بے دردی سے لوٹا ہے۔ معیشت تباہی کی درجنوں دوسری وجوہات کے ساتھ یہ وجہ بھی اہم ہے کہ احتساب کا عمل شفاف نہیں ہوتا۔ اس تاثر کا فائدہ ہر بار وہ بدعنوان اٹھا لیتے ہیں جو اقتدار میں آنے کا مقصد صرف لوٹ مار سمجھتے ہیں۔نیب راولپنڈی کو اس امر کا ضرور پتہ چلانا چاہیے کہ کس نے اقتدار میں آ کر کتنے ناجائز اثاثے بنائے لیکن اس عمل کو صرف ایک جماعت سے منسلک کر دینے سے احتساب کا عمل اپنی ساکھ کھو بیٹھے گا۔