دنیا ڈیجیٹل ‘آن لائن ہوگئی ہے تو جرائم اور مجرم بھی آن لائن ہوگئے ہیں۔ ملک کے اہم مالی اداروں کی سائبر حدود پر حملے کیے جارہے ہیں اور عام لوگ آن لائن جرائم کا نشانہ بن رہے ہیں۔چند ماہ پہلے انکشاف ہوا کہ ٹیکس جمع کرنے والے ادارہ ایف بی آر کا ڈیٹا بیس ہیک ‘چوری کرلیا گیا تھا اور ٹیکس گزاروں کی معلومات انٹر نیٹ کے چور بازار (ڈارک سائٹ) میں سرِعام دستیاب تھیں۔اکتوبر میںسائبر چوروں ‘ یاہیکرزنے نیشنل بینک آف پاکستان کے سرورز (بڑے کمپیوٹرز) پر سائبر حملہ کیا اور اسکے کئی حصوں تک رسائی حاصل کرلی ۔ڈیجیٹل جرائم عام ہوگئے ہیں۔ ڈیجیٹل ہیکرز سرکاری کمپیوٹروں میں آن لائن گھس کر معلومات چوری کرتے ‘ان کے ڈیٹا بیس کو خراب کرتے اور ویب سائٹس کو مسخ کردیتے ہیں۔ عام لوگوں کے بینک اکاونٹ سے آن لائن رقوم چوری کرلی جاتی ہیں۔ہیکرز لوگوں کے کریڈٹ ‘ ڈیبٹ کارڈ چوری کرکے رقوم نکلوا لیتے ہیں۔ سائیبر اسپیس مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔ آن لائن پلیٹ فارمز کوخواتین کو ہراساں کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ ان پلیٹ فارمز (فیس بک‘ٹویٹر وغیرہ) کے ذریعے جرائم پیشہ افراد بچوں کوبھی نشانہ بناتے ہیں۔ باقاعدہ ایک ڈارک سائبر کی دنیا آباد ہے جہاں بہت سی مفید معلومات مفت لیکن غیر قانونی طور پر مل جاتی ہیں ساتھ ہی فحش مواد کا ایک سیلاب بھی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے جرائم کرنے والے ملکی حدود سے بالا بالا کام کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے مشرقی یورپ اور بالٹک ملکوں (لیتھوینیا) وغیرہ سے فون کالز موصول ہوئیں جن کا مقصد میرے اسمارٹ فون میں داخل ہوکر میرے پاس ورڈز چوری کرنا اور میرے بینک اکائونٹ کو ہیک کرنا تھا۔ چونکہ اب اسمارٹ فون ایک چھوٹے سے لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کے طور پر استعمال ہوتا ہے اسلیے کوئی ڈیجیٹل چور(ہیکر) اس میں داخل ہوجائے تو آپ کی ہر معلومات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ فون کال یا ای میل کے ذریعے کسی اسمارٹ فون تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ چند ماہ پہلے اسرائیلی کمپنی کے جاسوسی سافٹ وئیر پیگاسس کا انکشاف ہوا تھا ۔ ایک انڈین ادارے نے اس سافٹ وئیر کے ذریعے بھارتی حکمران جماعت کے مخالفین کے ٹیلی فون ریکارڈکیے۔ صرف یہی نہی بلکہ یہ جاسوسی سافٹ وئیر پاکستان کے سیاستدانوں کی جاسوسی کے لیے بھی استعمال کیا۔ آجکل مختلف سیاستدانوں جیسے مریم نواز کی ٹیلی فون پر گفتگو کی جو آڈیوز منظر عام پر آرہی ہیںوہ ایسے ہی سافٹ وئیرز کے ذریعے ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ وٹس ایپ پر کی گئی گفتگو کو کوئی تیسرا شخص سُن نہیں سکتا لیکن ایسے سافٹ وئیر آگئے ہیں جو اس گفتگو کو بھی سن سکتے اور ریکارڈ کرسکتے ہیں۔ غرض آن لائن کیا گیا کوئی کام مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ سائبر جرائم کرنے والے لاتعداد ہیں کیونکہ کمپیوٹر کی تعلیم عام ہوگئی ہے۔تیزرفتار انٹرنیٹ آسانی سے دستیاب ہے۔ کمپیوٹر آلات عام دسترس میں ہیں۔ جبکہ ڈیجیٹل جرائم سے نپٹنے کے لیے قانون سازی ہمارے ہاں خاصی تاخیر سے ہوئی اور ان جرائم کے اندراج اور تفتیش کے لیے جو ادارہ (ایف آئی اے) ہے وہ بہت چھوٹا ہے ۔ اسکے وسائل اور عملہ محدود ہے۔ بہت سے لوگوں کو اسکا علم نہیں کہ اگر ان کے ساتھ آن لائن فراڈ یا غیر قانونی حرکت ہوجائے تو وہ داد رسی کے لیے کس کے پاس جائیں۔ سائبر جرائم کے حوالہ سے بنائے گئے قوانین کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرنے‘ شکایات کے اندراج اور تفتیش کے لیے موجود ادارہ کی آگاہی پھیلانے‘ ایف آئی اے کے سائبر ونگ کو توسیع دینے اوراسکی استعداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ کی بے تحاشا توسیع سے ایف آئی اے کا کام بہت بڑھ گیا ہے لیکن اسٹاف اس تناسب سے نہیں بڑھا۔ ایف آئی اے کے عملہ کو سائبر جرائم اور ڈیجیٹل سلامتی کے موضوعات پر ملکی و غیر ملکی آئی ٹی ماہرین سے تربیت دلوانی چاہیے تاکہ وہ سائبر جرائم کے خلاف موثر کاروائی کرسکیں۔ جس بڑے پیمانے پر آن لائن فراڈ ہورہے ہیں بہتر ہوگا کہ ہر تھانہ میں سائبر جرائم کا ایک ڈیسک بنادیا جائے ۔ لوگوں کو عام طور سے یہی علم ہے کہ جرائم کی شکایت پولیس کے پاس درج کروائی جاتی ہے۔ملک کے طول و عرض میں تھانے موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایف آئی اے کے اتنی تعداد میںدفاتر نہیں کھولے جاسکتے۔ پولیس کو سائبرجرائم کی شکایات کے لیے ایف آئی اے سے منسلک کیا جاسکتا ہے ۔ ضروری ہے کہ اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دی جائے کہ وہ کس طرح جرائم پیشہ لوگوں سے بچ سکتے ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ فیس بک‘ انسٹا گرام وغیرہ پر ہر کس و ناکس‘ اجنبی شخص کو دوست نہ بنائیں۔ ٹیلی ویژن ‘ اخبارات اور ویڈیو پیغامات کے ذریعے تشہیرکی جائے کہ لوگ آن لائن بینک فراڈ اور دیگر ڈیجیٹل جرائم سے بچنے کے لیے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ آنے والے وقت میں مالی سائبر جرائم میں اضافہ ہوگا۔ صرف عام انٹرنیٹ پر ہی نہیں بلکہ ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے بنائی گئی کلاؤڈ اسپیس اور انٹر نیٹ آف تھنگز پر بھی۔ امریکہ کئی برسوں سے رُوس پر الزام لگا رہا ہے کہ اسکے سائبر مجرم ’رین سم وئیر‘ (چور سافٹ وئیر) بنا کرامریکی سائبر اسپیس اور سرکاری ڈیٹا بیس میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ امریکہ چینی کمپنی ہوآوے پر سائبر جاسوسی کرنے کے الزام لگا کر پابندیاں عائد کرچکا ہے۔امریکہ ایسی سپر پاور ان سائبر مجرموں کے ہاتھوں پریشان ہے اور اپنے تحفظ کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ اس میدان میںپاکستان ابھی بہت پیچھے ہے۔ پانچ برس پہلے پاکستان نے سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے پہلا مخصوص قانون نافذ کیا۔ گزشتہ اگست میںوفاقی کابینہ نے سائبر سیکیورٹی پالیسی منظور کی۔ یہ محض شروعات ہیں۔ ہمیں اپنی سائبر حدود اور عام لوگوں کو سائبر جرائم سے محفوظ بنانے کی خاطر اہم اقدامات کرنا ہوں گے۔سرکاری اور مالی اداروں کو اپنے کمپیو ٹروں اور سافٹ وئیرز کو اپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔ اب جرائم کی روک تھام کے لیے روایتی پولیس سے کام نہیں چلے گا۔ دنیا بدل گئی ہے۔ آن لائن ‘ سائبر پولیس کو توسیع دینا ہوگی۔ اسی طرح ملک کی سلامتی کے لیے سائبر فوج بنانا ہوگی۔ ایسی فوج جو دشمن کے سائبر حملے روک سکے اور ضرورت پڑنے پر اُس پر جوابی حملے کر سکے۔