اسلام آباد(سہیل اقبال بھٹی)پاورسیکٹرسکینڈل پر وزیراعظم عمران خان کو پیش کی گئی انکوائری رپورٹ نے وزیراعظم آفس سمیت حکام بالا کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ گزشتہ 13 برسوں کے دوران سبسڈی اور گردشی قرضے کے باعث قومی خزانے کو 4802ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے جبکہ معاون خصوصی توانائی ندیم بابر پاورسکینڈل رپورٹ کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگئے ۔ انکوائری رپورٹ میں گردشی قرضے اور بجلی کے نرخوں میں کمی کیلئے ہنگامی بنیادوں پرتجویزکردہ اقدامات اٹھانے کی سفارش کی ہے جس میں آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ،سبسڈی اور گردشی قرضے میں صوبوں کی شمولیت،آئندہ 5سال تک نیاپاورپلانٹ لگانے پر پابندی،زیرتعمیرپاورپلانٹس پر نظرثانی،25سال پورے کرنے والے پاورپلانٹس سے بجلی خریداری ترک اور کے الیکٹرک کے 1600میگاواٹ کے نئے پاورپلانٹ کی تنصیب روکنا شامل ہے ۔1994کی پاور پالیسی کے مطابق 17میں سے 16آئی پی پیز نے 50ارب80کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اور 415ارب روپے سے زائد کا منافع حاصل کیا۔زیادہ تر آئی پی پیز کے پے بیک کا دورانیہ 2سے 4سال کے درمیان تھا۔ وزیراعظم کی ہدایت پر 32آئی پی پیز کیساتھ پانچ نکاتی مذاکرات ویڈیو لنک پر آج ہوں گے ۔92نیوز کوموصول انکوائری رپورٹ کے مطابق 1994کی پاورپالیسی کے تحت 16آئی پی پیز نے سرمایہ کاری کی مناسبت سے 18گنا زیادہ منافع حاصل کیا گیا۔6کمپنیوں نے ایکوٹی پر اوسطاً 60سے 79فیصد ریٹرن حاصل کیا جبکہ 4کمپنیوں نے 40فیصد کے قریب ایکوٹی پر ریٹرن حاصل کیا۔دوسرے شعبوں کے مقابلے میں یہ منافع کئی گنا زیادہ رہا۔ حکومت کو تجویز دی گئی کہ آئی پی پیز کیلئے بیس ٹیرف ڈالر سے روپے میں منتقل کر دیا جائے ۔کمیٹی نے تمام آئی پی پیز کی فرانزک تصدیق اور قانونی آڈٹ کی بھی تجویز دی ہے ۔ 1994اور2002کی پاور پالیسی کے تحت قائم کیے جانے والے جینکوز اور آئی پی پیز کو ریٹائر کر دیا جائے ۔ 2002کی پاور پالیسی کے مطابق 13ریزی ڈوول فیول آئل اور گیس سے چلنے والے پلانٹ قائم کیے گئے جن کی پیداواری صلاحیت 2934میگاواٹ ہے ۔گزشتہ8سے 9سال کے دوران ان کمپنیوں نے 57ارب81کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے بدلے 203ارب روپے کا منافع کمایا۔قرضوں کی ادائیگی کے باوجودکمپنیوں نے 152ار ب روپے کمائے جبکہ ڈیویڈنڈ کی مد میں 111ارب کی ادائیگی کی گئی۔رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کی انفرادی منافع کی شرح مختلف رہی جس کے مطابق کچھ کمپنیوں کو زائد منافع حاصل ہوا۔سب سے زیادہ ایکوٹی پر87فیصد ریٹرن کمایا گیا۔کوئلے سے چلنے والے دو در آمدی پلانٹس سے متعلق رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2015کی پاور پالیسی کے تحت قائم کیے جانے والے ایک پلانٹ نے صرف دو سال کے دوران سرمایہ کاری کی 71فیصد رقم حاصل کر لی جبکہ دوسرے پلانٹ کی جانب سے پہلے سال کے دورا ن ہی سرمایہ کاری کی32فیصد رقم حاصل کی جا چکی ہے ۔دونوں پلانٹس کو امریکی ڈالر کے تحت 17فیصدانٹرنل ریٹ آف ریٹرن کی پیشکش کی گئی جو کہ ایکوٹی پر 27فیصد بنتا ہے ۔گزشتہ دو سال کے دوران روپے کی قدر میں کمی کے باعث دونوں پلانٹس کی ایکوٹی پر ریٹرن 43فیصد ہے ۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق مالی سال 2005سے مالی سال2010کے دوران ملک میں بجلی کی لاگت148فیصد جبکہ بین الاقوامی تیل کی قیمتوں میں اضافے وجہ سے اوسط ٹیرف میں بجلی کی پیداوار میں فرنس آئل کا استعمال،روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں 33فیصد اضافہ ہوا۔گردشی قرضے میں 2000کے اواخر میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔تمام حکومتوں کی جانب سے بجٹ میں تعاون کے ذریعے اس پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔پاور سیکٹر کو مالی سال 2007سے مالی سال 2019کے دوران میں بجٹ میں 3202ارب روپے کی سپورٹ کی گئی۔ جس میں بجٹ میں سبسڈی کے ذریعے 2860ارب جبکہ دوسرے ذرائع سے 342ارب روپے فراہم کیے گئے ۔اس کے باوجود گردشی قرضہ مالی سال2019میں 465ارب روپے سے بڑھ کر 1600ارب روپے تک جا پہنچا۔جس سے قومی خزانے کوگزشتہ13سال کے دوران 4802ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ مالی سال2019کے دوران سسٹم میں ہر 100یونٹس کے تین یونٹ ترسیل کے دوران کم ہو جاتے ہیں ڈسکوز لیول کے دوران 17یونٹ نا اہلیت کے باعث ختم ہو جاتے ہیں۔1344ارب روپے کے مکمل پی پی پی کے دوران ختم ہونے والے یونٹس کی لاگت30ارب روپے ہے جبکہ ریکوری کے دوران 120ارب روپے ضائع ہوئے نجی سیکٹر کے ڈسکوز سے دسمبر2019میں قابل وصول رقم 628ارب روپے تھی۔جس میں رننگ ڈیفالٹر کے 525ارب جبکہ غیر منقطع ڈیفالٹر کے 103ارب روپے شامل ہیں۔رننگ ڈیفالٹر کی جانب سے بجلی کی فراہمی کے باوجود ادائیگی نہیں کی جارہی۔2007میں قومی قرض52فیصد تھا جو کہ مالی سال 2019میں 85فیصد تک پہنچ چکا ہے ۔قومی قرض میں 33فیصد اضافے سے حکومت کی جانب سے پاور سیکٹر کی معاونت کرنا ممکن نہیں رہا۔ گردشی قرضے میں کمی کیلئے مندرجہ ذیل تجاویز دی گئیں۔وفاقی،صوبائی حکومتوں،آزاد کشمیر اور کے الیکٹرک سے ڈسکوز کو وصول ہونے والے بقایا جات ڈسکوز کے مکمل بقایا جات کا 26فیصد ہیں جن کو وصول کرنا ضروری ہے تاکہ گردشی قرضے کے بقایا جات میں کمی لائی جا سکے ۔آئی پی پیز اور ان کے فرانزک آڈٹ سے مشاورت کے بعد وصول ہونے والی رقم کو گردشی قرضے کے اسٹاک میں ایڈجسٹ کیا جانا چاہیے ۔بین الاقوامی تیل کی کم قیمتوں سے فائدہ حاصل کیا جائے اور سالانہ20ارب لیٹر پیٹرول اور ڈیزل کی کھپت پر 5روپے فی لیٹر چارج سے 100ارب روپے اضافی ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے ۔زائد فیول کی لاگت پاکستان میں مہنگی بجلی کی بڑی وجہ رہی ہے لیکن اب سنو بالنگ کیپسیٹی پیمنٹ بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے ۔علاوہ ازیں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی ندیم بابرنے پاور سیکٹر سکینڈل کی انکوائری رپورٹ کی مخالفت میں بالاخرکھل کر سامنے آگئے ہیں۔ندیم بابر نے وفاقی وزیر پاور ڈویژن اور آئی پی پیز کیساتھ 6رکنی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عمر ایوب کو پانچ صفحات پر خط لکھ دیا ہے ۔ خط کے ذریعے ندیم بابر نے انکوائری رپورٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر عمرایوب کی سوچ بدلنے کی کوشش کی کی ہے ۔ حیران کن طور ندیم بابر کی وزیراعظم کی پالیسی کی بجائے آئی پی پیز کے دفاع میں مصروف ہوگئے ہیں۔ندیم بابرخود آئی پی پی اورینٹ پاور میں حصہ دار ہیں۔92نیوز کوموصول ندیم بابر کے خط کی کاپی کے مطابق میں انکوائری رپورٹ سے مایوس ہوا ہوں۔ انکوائری رپورٹ میں پاور پلانٹس سے متعلق غلط حقائق پیش کئے گئے ہیںَ، میں ستمبر 2018سے آئی پی پیز کو معاہدوں پرنظرثانی کے ذریعے ٹیرف کم کروانے کیلئے کوشاں ہوں۔ انکوائری رپورٹ نے میری کاوشوں کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔ انکوائری رپورٹ نے مجھے مایوس کردیا ہے ۔ صرف چند آئی پی پیز اضافی منافع کمایا،انکے ساتھ ٹیرف میں کمی پر بات ہونی چاہیے ۔انکوائری رپور ٹ کے مطابق ندیم بابر کے پاورپلانٹ اورینٹ نے 2015-16میں فیول کھپت کی مد میں 2ارب روپے اضافی منافع کمایا۔ ندیم بابر اپنے پاورپلانٹ اورینٹ پاور کی بھی وضاحت پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ میں اورینٹ پاور میں حصہ دار ہوں،2ارب نہیں صرف 16کروڑ روپے فیول کھپت میں بچائے ۔ ندیم بابر نے عمرایوب کو سفارش کی ہے کہ آئی پی پیز پر الزامات کی بجائے اعتماد کا ماحول بنائیں۔ ماضی میں ناقص پلاننگ کی گئی۔ اضافی پاور پلانٹس لگ چکے ہیں۔ ملکی طلب کے پیش نظر اضافی پاور پلانٹس 6ماہ بند رہیں گے ۔ جنریشن پلاننگ کا فقدان تھا۔ اہم حکومتی شخصیت نے ندیم بابرکے خط پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ندیم بابر کو آئی پی پیز کے دفاع کیلئے مستعفی ہوجانا چاہئے ۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی کے طور پر انہیں وزیراعظم اورحکومتی پالیسی کا ساتھ دینا چاہئے ۔