انسانی تاریخ میں یقیناخاتون جنت، سیدۃ نساء العالمین ،نورِ چشم رحمۃللعالمین سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت تمام خواتین کے لیے اسوۂ کامل کا درجہ رکھتی ہے آپ سلام اللہ علیہا نے ایک بیٹی ،بہن ،بیوی اور ماں کے روپ میں قیامت تک آنے والی خواتین کے لیے جو نقوش راہ وتربیت چھوڑے ہیں ،وہ عدیم المثال ہیں اور یقیناایک عورت اور پورے معاشرے کی بقا کے لیے لازم ہیں ۔سیدہ سلام اللہ علیہا کی حیاتِ مبارکہ کا ہر پہلو خواتین کے لیے مشعل راہ ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ہم نے منبع رشد وہدایت سے روشنی کی خیرات لینا ترک کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگیاں اندھیروں کی آماجگا ہ بن گئی ہیں ۔ بچپن میں جب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے والد محترم امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دن رات توحید و رسالت کی تبلیغ میں مصروف پاتیں جبکہ کفار مکہ کا غیظ و غضب بھی اپنے عروج پر ہوتا تو اپنے والد گرامی کی محنتوں اور کاوشوں کا درد محسوس کرتیں اور اکثر اوقات وہ درد آنسوئوں کی صورت اُمڈ آنا ۔آپ اپنی عظیم والدہ سیدہ خدیجۃا لکبریٰ سلام اللہ علیہا کی عظیم تربیت کے باعث کم عمری ہی سے عبادت و ریاضت،سخاوت ،ایثار ،فقرو غنی ، طہارت ،عفت و حیا،محبت و اخلاص کا عظیم پیکر تھیں ۔کوئی سائل دروازے پر آتا تو خالی نہ جاتا یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ سلام اللہ علیہا کا گھرانہ فاقہ سے تھا مگر ایک نو مسلم نے دروازے پر آکر کھانے کا سوال کیا تو اپنی چادر مبارک یہودی کے پاس رکھ کر اسے کھانا دلوایا ۔ روزے کی حالت میں افطار کے قریب تین دن تک مسلسل کوئی نہ کوئی سائل دستِ سوال دراز کرتا تو کھانا اسے دے دیا جاتا اور خود پانی سے روزہ افطار کر کے شکر کا کلمہ ادا کیا جاتا۔ مخدومۂ کونین سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا گھر کے کام خود اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیتیں، چکی پیستیں ،پانی کا مشکیزہ بھرتیں ،کھانا پکاتیں ، صفائی کرتیں ، الغرض’ شہزادی کون و مکاں ‘اور’ خاتون جنت‘ ہونے کے باوجود ان کاموں میں عار محسوس نہیں کرتی تھیں ،بحیثیت بیوی اپنے شوہر اور رفیق حیات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو آرام اور راحت پہنچانے کی کوشش کرتیں ۔عام طور سے خواتین کی طبیعت اسبابِ زیب وزینت کی طرف خاص رغبت رکھتی ہے ‘ اِس کے سبب اکثر مردوں کو پریشانی اُٹھانا پڑتی ہے اور بسااوقات آمد وخرچ کے توازن میں فرق آنے سے گھریلوماحول میں پریشانیاں جنم لیتی ہیں لیکن سیدۂ عالم سلام اللہ علیہا نے ہمیشہ اپنی حیاتِ مقدسہ کو مسلمانوں کے غریب گھرانوں کی خواتین کے لیے بہترین نمونہ کی حیثیت سے پیش کیا اور کبھی لباس وزیور یاسامانِ خانہ داری میں تصنع کو پسند نہیں کیا کیوں کہ ان کے باباجان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم بھی ایسے تھی ، اِس لیے آپ کے سیرت ِ مبارکہ پر قلم نگاری کرنے والوں نے لکھا ہے کہ’’سیدہ سلام اللہ علیہا نے کبھی اپنے شوہر سے کوئی ایسی فرمائش نہ کی کہ انھیں اس خواہش کی تکمیل کرنے میں کوئی پریشانی اٹھانی پڑے ۔‘‘ سیدہ سلام اللہ علیہا کے وصال باکمال کے بعد کسی شخص نے سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے سوال کیا :’’سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ساتھ آپ کے ساتھ کیسا تھا‘‘؟آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے سر د آہ بھر کر جواب دیا : ’’بے شک فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ‘جنت کے ایک پھول کی مانند تھیں جن کی خوشبو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے ‘‘۔ سیدہ سلام اللہ علیہا نے اپنے بابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت، شوہر نامدار سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کی اعانت ونصرت اور اولادامجاد علیہم السلام کی تربیت میں وہ پختہ کردارنبھایا جو رہتی دنیا کے لیے قابل تقلید بے نظیر مثال ہے ۔ آپ کی آغوش محبت دنیا کی وہ عظیم درس گاہ تھی جس میں نوجوانانِ جنت کے سردار سیدنا حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام نے پرورش اور تربیت پائی ۔وہ اپنے کردار اور دین اسلام کی خاطر قربانیاں دے کرتا قیامت زندہ و جاوید ہوگئے ۔یہ آپ سلام اللہ علیہا ہی کے پاک دودھ اور تربیت کا ثمر تھا کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کاسر نیز ے پر چڑھ گیا مگر عزم و حوصلہ نہ صرف قائم و دائم رہا بلکہ مستقبل کے ہر نوجوان کو ایک عظیم کردار اور مقصد عطا کردیا ۔ حضرت فضہ رضی اللہ عنہا ‘ جو سیدہ ٔ کائنات سلام اللہ علیہا کی کنیز رہیں مگر آپ سلام اللہ علیہا کا طرز عمل یہ تھا کہ ایک روز حضرت فضہ رضی اللہ عنہا تمام امور کی انجام کا فریضہ سر انجام دیاکرتیں اور ایک روز خود آپ سلام اللہ علیہا کام کرتیں ۔کردار کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ سارا بوجھ اپنی کنیز پر نہیں ڈالا ۔آپ نے مخلوق خدا کے درد اور دکھ سے ہمیشہ اپنے دِل کو آراستہ رکھا اِس لیے آپ سلام اللہ علیہا ہمیشہ اپنی دعاؤں میں بھی اہل ایمان مرد وخواتین کو مقدم رکھتیں ،چنانچہ سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات بھر محرابِ عبادت میں کھڑے ہوکر نماز پڑھی اور جب تکمیل فرمائی تو تمام اہل ایمان مرد وخواتین کے لیے بہت دعا کی مگر اپنے لیے کوئی دعا نہ مانگی ،آپ فرماتے ہیں‘ میں نے عرض کیا ،کہ اے مادرِ عزیز سلام اللہ علیہا ! آپ نے اپنے لیے تو اپنے رب سے دعا میں کچھ نہیں مانگا ۔ ارشاد فرمایا :’’ الجار ثم الدار‘‘ جس کے معنی ہیں ’پڑوسی کا خیال گھر کی دیکھابھال سے مقدم ہے ‘۔ سیدہ خاتون جنت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حیاتِ مبارکہ کا ہر پہلو مینارۂ نور ہے جو ہر خاتون کے لیے قابل تقلید ہے ۔آج کی عورت ان تعلیمات کو چھوڑ کر معاشرے میں اپنا مقام تلاش کر تی پھر رہی ہے جب کہ حقیقی عزت ان کے قدموں سے لپٹ کر خیر حاصل کر لینے میں ہے ۔ میری قارئین بہنوں سے درخواست ہے کہ وہ سیدہ کائنات سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے اسوۂ حسنہ کو پڑھیں ان کے اطوار و اخلاق کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کریں گی تو انھیں دنیاوی تکالیف و مصائب سے نجات حاصل ہوگی۔ اگر وہ بھی استقامت اور صبر کے ساتھ مشکلات کو برداشت کرتی ہے اور سیدۂ کائنات سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکے اسوہ میں خود کو ڈھال کر زندگی بسرکرتی ہے تو وہ دنیا و آخرت میں سرخرو اور کامیاب ہوگی۔