پاکستان کو رواں سال کے لیے بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں ایک ارب ستر کروڑ ڈالر کی چھوٹ ملی ہے۔ ظاہر ہے وبا کی وجہ سے ملک کی مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے امیر ممالک نے ترس کھایا ہے اور وقتی طور پر پر قرضوں کی ادائیگی کا معاملہ التوا میں ڈال دیاہے۔ بہر حال یہ مہلت ہے، معافی نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پالیسی ساز اس مہلت سے فائدہ اٹھا ئیں اور اس قرضے کی ادائیگی کی فکر کریں جو بہر حا ل کرنا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے اور وسائل اتنے نہیں ہیں کہ اصل رقم ہی ادا کرپائیں۔ صرف سود ہی ادا کرپاتے ہیں اور یہ سود بھی قرضے لیکر دیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملکی محصولات قرضوں یا سود کی ادائیگی میں صرف ہوجاتے ہیں اور حکومتی اخراجات قرضے پر چلائے جارہے ہیں۔ ہمارے اپنے وسائل نہیں تھے کہ ہم ڈیم، موٹروے اور بلند وبالا بلڈنگ کھڑی کرتے، ترقی یافتہ قوموں کی ہمسری کے خواب نے ہمیں قرضوں کے دلدل میں پہنچا دیا۔ حالیہ قرضوں کی ادائیگی میں ملنے والی چھوٹ کے ساتھ شرط لگا دی گئی ہے کہ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے ممالک اس عرصے میں کمرشل بنیادوں پر بھاری قرضے نہیں لے سکتے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمیں ایسے قرضے کی اس وقت اشد ضرورت تھی، سی پیک کے دوسرے مرحلے کا کراچی۔ پشاور ریلوے لائن کو دوہرا کرنے کا منصوبہ التوا کا شکار ہے۔ اس حوالے سے چین اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور ہوا تو یہ مسئلہ درمیان میں آٹپکا۔ ریلوے منصوبے کی تکمیل کے چھ ارب آٹھ کروڑ ڈالر چاہییں، اسی فیصد کی چین حامی بھر چکا ہے، باقی کہاں سے آئیں۔ کمرشل قرضوں کی صورت میں اس ملک کی بینکوں سے مل سکتا ہے لیکن حالیہ شرط آڑے آگئی ہے۔ اب پاکستان کی خواہش یہ ہے کہ منصوبے کی تمام رقم ہمسائیہ ملک دے، ایک فیصد شرح سود ہو، دس سال واپسی کا تقاضہ تک نہ کرے جب کہ اگلے دس سالوں میں ادائیگی کی جائے۔ اگلے کی مرضی ہے نہ مانا تو منصوبہ وقت پر شروع نہیں ہوسکے گا۔ ریلوے کی حالت یہ کہ وزیر موصوف فرما چکے ہیں کہ ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن تک دینے کے پیسے نہیں، پاکستان سٹیل ملز کی طرح اسے بھی بند کرنے کے علاوہ چارہ نہیں۔ پاکستان کی اپنی معیشت میں اتنی سکت نہیں کہ بند صنعتوں کو زندہ کرسکے ، کورونا وائرس کے جھٹکے نے امیر ملکوں کے بھی چھکے چھڑا دیے ہیں ، نئے قرض دینا تو دور کی بات، انہیں غریب ممالک سے قرضے کی واپسی کی فکر ہے۔ امریکہ کے عالمی مفادات میں ہمار ا بھی کام نکل آتا تھا اور یوں ہر سال اوسطاً چار یا پانچ سو ملین ڈالر کا سہارا مل جاتا تھا۔ ملکی تاریخ میں اندھا دھند قرضے لیے گئے ہیں، نہ دینے والوں نے سوچا کہ کہ ایک غیر پائیدار معیشت کا حامل ملک یہ قرض کیسے واپس کریگا، نہ ہی لینے والوں نے پرواہ کی ۔ کھایا ، پیا مال ہضم ، یہ جا وہ جا۔ انگریز نے جو معاشی نظام دیا تھا اس کا انحصار زرعی شعبے سے ہونے والی محصولات پر تھا۔ اسے پتہ تھا کہ اس خطے کیا پورے ہندوستان میں سونے، ہیرے جواہرات کی کانیں نہیں ہیں، پانی کے وسائل، زرخیز زمین اور جنگلات اور ایک بڑی آبادی کے علاوہ یہاں کچھ ہوتا تو وہ یہاں سے کبھی واپس نہ جاتا۔ اس نے بیراج بنائے ، جنگلات کٹوائے اور نئی نویلی زمینیں یا تو بیچیں یا پھر اپنے حواری خاندانوں کو عنایت کیں۔ دریاوں کے کنارے اور جنگلات میں آباد لوگ بیدخل ہوئے اور برطانوی سامراج کے چہتیوں کے رحم و کرم پر آگئے۔ گندم بڑے پیمانے پر کاشت ہوئی جس کی کٹائی پر آبیانہ وصول کیا جاتا اور سال کا بجٹ بنتا۔ اجناس اور غلے کی منڈیاں بنائی گئیں اور ریل نظام کے ذریعے انکی دیگر علاقوں اور بندرگاہوں کو ترسیل ہوتی۔ انگریز نے زراعت اور ریلوے کے امتزاج سے اس خطے کو یکسر تبدیل کردیا۔ ترقی کی اس ساری کہانی میں زراعت توہے لیکن دریا، جنگل ، مچھلی اور لائیوسٹاک نہیں۔ یوں یہ ایک بہت بڑی سماجی تبدیلی تو تھی ہی کہ آبادی کا انخلا ان خطوں میں ہوا جو قدرتی طور پر یا تو صحرا تھے یا پھر جنگلات، زیر زمین پانی کڑوا تھا، نہری پانی کی سپلائی پر زراعت بھی منحصر تھی اور انسانی اور حیوانی زندگی بھی۔ ظاہر ہے اگر انگریز نے ایسا کیا تھا تو اسے خطے یا اس کے باسیوں کی محبت میں نہیں کیا تھا۔ نہ ہی اسے ماحولیات سے غرض تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان بننے کی بعد ایسی غیر پائیدار ترقی کے جنون میں مزید شدت آگئی۔ بھارت سے پیسے لیے اور تین دریا اس کے حوالے کردیے۔ بقیہ رقم عالمی بینک نے دی اور ہم بیراجوں سے ہوتے ہوئے ڈیموں کی طرف چلے گئے۔ پہلی دفعہ ہم نے زراعت کے لیے قرضہ لیا اور آج تک زراعت یہ قرضہ واپس نہیں کرسکی۔ آبادی کم تھی تو گزارا چلتا رہا، امریکہ کی طرف سے مالی امداد ملتی رہی تو ہماری سفید پوشی کا بھی بھرم باقی رہا ، شہر پھیلتے گئے، جنگلات کارقبہ سکڑتا چلاگیا۔ اب آبادی کا عفریت سر پر ہے اور غیر پائیدار معیشت ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ حکمرانوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں کہ تنخواہوں اور پنشنوں تک کا بوجھ اٹھانا مشکل ہے دیگر سہولیات زندگی کے وعدے کہاں سے پورے ہوں۔ پانچ دریاوں کی سرزمین میں لوگوں کے پاس صاف پینے کا پانی تک نہیں ہے تو بیماریوں کا بوجھ سر پر تو رہے گا ہی۔ دالیں اور کوکنگ آئل تک باہر سے منگائے جاتے ہیں ، تازہ مچھلی اور گوشت لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہے تو غذائی تحفظ کی ضمانت کہاں سے آئیگی۔ جہاں تک معاملہ ہے سیاست کا تو آزاد قوموں کی سیاست ملکی وقار اور بنیادی حقوق کے تحفظ پر مرکوز ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں اسکا ہدف مقروض معیشت کو دوام بخشنا ہے، معیشت پٹڑے پر ہے تو اسکے سانس بھی اکھڑے ہوئے ہیں!