بشیر بدر نے کہا تھا : سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت لاریب کتاب میں ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ اپنی ان باتوں کو نہ بدل دیں جو ان کے دلوں میں ہیں۔ جب وہ کسی قوم کی باتوں کی وجہ سے انہیں برائی پہنچانا چاہتا ہے، تو اس کے ارادے کوئی بدل نہیں سکتا۔ نہ اس کے پاس کوئی حمایتی کھڑا ہو سکتا ہے۔ اہل پاکستان کہتے ہیں ،ہم کچھ بھی نہ کریں اور آسمانوں سے خوانِ نعمت اترتی رہے ۔یاد رہے اللہ تعالیٰ اپنی دی ہوئی نعمتیں گناہوں سے پہلے نہیں چھینتا۔ انسان جب تکبر اور غرور کی حدودیں پار کر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آتی ہے ۔فرعون،قارون اور نمرود کے ساتھ کیا ہوا؟ اللہ نے انہیں اپنی نعمتیں دیں ،وہ سیاہ کاریوں میں مبتلا ہو گئے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیئے ہوئے باغات چشمے کھیتیاں خزانے محلات اور نعمتیں جن میں وہ بد مست ہو رہے تھے، سب چھین لیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی پاکستان کو تمام نعمتوں سے نوازا۔کم وسائل کے باوجود ایٹمی ٹیکنالوجی بھی دی ۔چاروں موسم عنایت کیے۔اس کے باوجود ملک ذلت،پستی،پسماندگی ،تنزلی و انحطاط کے ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔پورا ملک زخموں سے چور چور ۔ پورے بدن سے خون رس رہا ۔سوال یہ پیدا ہوتا کہ پورا جسم چھلنی و زخمی ہے تو پھاہا کہا ں کہاں رکھا جائے۔ منڈی بہائو الدین میرا آبائی علاقہ ہے۔وہاں کے باسیوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں موجود ہیں ۔وہاں کے نوجوانوں نے جب سے یورپ کا رخ کیا، تب سے یہ علاقہ بھی یورپ بنا ہوا ۔پیسے کی کمی نہیں ۔اسی بنا پر آئے روز گھبرو جوان خون میں نہا رہے ہیں ۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب قتل نہ ہوتا ہو ۔ دنیا بھر میں حیوانوں کے بھی حقوق ہیں،مگر یہاں انسان کا خون ہی ارزاں ہو چکا ۔سیاست دان اپنی سیاست میں مگن ۔ ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ۔ہم غیروں سے کیا شکایت کریں جب اپنے ہی خاموش ہیں۔ ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔تو انتظامیہ کیا کرے گی ۔سیاستدان ووٹ لینے کے لیے پرانے سے پرانے تعلقات کو بحال کر لیتے ہیں ۔مگر قتل و غارت روکنے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا ۔یوں لگتا جیسے وہ اپنی دنیا میں مست و مگن ہیں۔ ان کے لیے کرسی و حکومت ہی سب کچھ ہے۔ عوام سے صرف انھیں ووٹ چاہیے ،باقی کچھ نہیں ۔ ضلع کے عام افراد بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں۔ وہ بھی اس قتل و غارت کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں، جتنے علماء و سیاست دان ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ علماء کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد سیاست دانوں اور عوام کی۔ لیکن ذمہ داری سب کی ہے، کوئی اپنے کو اس سے الگ نہیں کر سکتا ہے۔ اس وقت کچھ اوورسیز پاکستانی جن کا تعلق منڈی بہائو الدین کی سرزمین سے ہے ۔جن میں محترم شاہد رضا رانجھا اور محترم ناصر عباس تارڑ سمیت کئی لوگ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں ۔جن میں سر فہرست منڈی بہائو الدین شہرمیں ہسپتال کا قیام ہے ۔میرے گائوں کدھر شریف میں اوور سیز جوانوں نے مل کر گائوں کی قسمت ہی تبدیل کر دی ہے ۔اگر یہ افراد کوشش کریں ،تو پرانی دشمنیاں ختم ہو سکتی ہیں ۔ ٹیپو رانجھا ہمارے ضلع کا ایک جانا پہچانا نام ہے ۔اسے یہ مہم چلانے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ۔قلم قبیلہ سے میرے محترم یوسف بدر اور عزیزم شاہد یونس کو بھی اس میں حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ۔سیاستدانوں میں نذر محمد گوندل،میجر (ر) ذولفقار گوندل ،امتیاز احمد چوہدری ،ناصر بوسال ،ساجد بھٹی،حمیدہ وحید الدین ، محمد طارق تارڑ ،ممتاز تارڑ۔ انھیں اس قوم کا قرض ادا کرنا چاہیے،جس معاشرے نے انھیں ایوانوں تک پہنچایا ،ان کے لیے سڑکیں ضروری ہیں،مگر اس سے بڑھ کرضلع میں امن بھی ضروری ہے ۔حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ بنانے کے بعد سب سے پہلے وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے امن مانگا تھا ۔بعد میں رزق کی دعا کی۔ضلع کے لیے پہلے امن ،بعد میں سب کچھ۔ لہذا ایک ایسی کمیٹی بنا ئی جائے جس میں ہر مکتبہ فکر کے نیک ،صالح ،باہمت اور بے داغ ماضی کے حامل افراد شامل ہوں ۔معاشرے میں جن کی عزت ہو،اگر وہ کسی کے گھر چلے جائیں تو کوئی آدمی انھیں خالی ہاتھ واپس نہ لٹاسکتا ہو۔جب میرے اوورسیزپاکستانیوں نے ہر گائوں میں اپنی مدد آپ کے تحت ایمولینس سروس شروع کر رکھی۔جب اربوں روپے کی خطیر رقم سے ہسپتال کھڑا کیا ، تو یہ کام بھی آسانی سے ہو سکتا ہے ۔بس ہمت ،حوصلہ ،صبر اور عزم صمیم چاہیے ۔یہ کسی فرد واحد یا کسی خاص جماعت اور گروہ یا کسی خاص ملک و بادشاہ یا حاکم یا سربراہ کی تنہا ذمہ داری نہیں ہے۔ اور نہ ہی تن تنہا اس کو آسانی سے سر انجام دیا جا سکتا ہے۔بلکہ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا : افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ اسی لیے ہر فرد اور شخص کو اپنی ذمہ داری ضرو ر سمجھنی چاہیے ۔جب کوئی انسان تنہا کسی منزل کی طرف خلوص کے ساتھ روانہ ہوتا ہے تو لوگ اس کے کارواں میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے: میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا پورے ضلع کے لوگ مفاد سے بلند ہوکرضلع بھر میں امن و امان کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایک قومی حکمت عملی اختیار کریں۔ بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوںضلع کی تاریخ میں کبھی اتنی قتل وغارت نہیں دیکھی۔ قومی سطح پر یہ بڑے شرم کا مقام ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے ایک فطری امر ہے،ہمیں اس سے بالاتر ہونا ہو گا ۔محمد خاں بھٹی کی گمشدگی پر جس طرح گوندل برادران فرخ پور تشریف لے گئے۔یہ قابل تقلید امر ہے۔ہر کوئی اس کی تحسین کر رہا،ملکی صورتحال تو پہلے ہی بڑی نازک تھی۔مگر اس سے زیادہ میرے ضلع کے حالات نازک ہیں۔مائیں جوان بچوں کے جنازوں سے لپٹ لپٹ کر اب تنگ آ گئی ہیں ۔خدا را تصادم کی بجائے مفاہمت کا راستہ نکالیں۔اگر ہم اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے تو کوئی دوسری جگہ سے آکر ہمیں نہیں بدل سکتا ۔