کیسے سنبھال پائے گا اپنے تو ماہ وسال کو میں نے اگر جھٹک دیا سر سے ترے خیال کو سب کچھ بدل کے رکھ دیا لوگوں نے اہتمام سے کچھ نہ ترے جواب کو کچھ نے مرے سوال کو صاحبو!یہ تو ہوتا ہی ہے کہ جب آمنے سامنے بیٹھا نہ جائے تو مرچ مصالحہ لگانے والے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔پھر رنجشیں اور دوریاں بڑھتی جاتی ہیں۔ایک سیاست ہی کیا کرکٹ کے کھیل میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے یعنی اس میں سیاست در آئی ہے‘ ایسے ہی جیسے سیاست کو کھیل بنا دیا گیا ہے۔ یہ صنعت معکوس باقاعدہ ایک چیز ہے۔ کرکٹ میں الگ طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کو بائولر آئے اور وہ بہترین بیٹسمین یعنی ثابت ہو ئے اور کوئی بلے باز آئے اور بائولر نکلے۔ بعض اوقات ٹیلنٹ بعد میں دریافت ہوتا ہے۔ ابھی کل دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے کسی مناسبت سے ذوق کا بھولا بسرا شعر ذھن میں آ گیا: واجب القتل اس نے ٹھہرایا آئینوں سے روائتوں سے مجھے اب سیاست اور کھیل میں ادب بھی یوں شامل ہو گیا کہ 92نیوز کے بیک پیج پر ایک خبر پرنظر پڑی تو میں نہال ہو گیا۔خبر تھی پی ٹی آئی کے ناراض ایم پی اے شہریار شر پیپلز پارٹی میں شامل۔ میں اس بات پر محظوظ نہیں ہوا کہ ایک وقت تھا پیپلز پارٹی کے لوگ دھڑا دھڑ پی ٹی آئی میں داخل ہو رہے تھے بلکہ ڈر لگ رہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کی ہئیت کو ہی نہ بدل دیں۔ راجہ ریاض بھی تو انہی میں شامل تھے اور اب کے وہ ناراض بھی ہیں اور جہانگیر ترین کے دائیں بازو بھی ہیں اور بائیں بھی۔خیر اس حوالے سے باتیں ہوتی رہیں گی اور لوگ بھی ابھی پیپلز پارٹی میں جائیں گے۔ اس خبر میں یہ مسئلہ بھی نہیں کہ کیوں کہ شہر یار شر کو پارٹی چھوڑنے کا اتنی جلدی خیال کیوں آ گیا۔ مجھے تو شاعر ہونے کے ناتے ان کے نام کے آخری حصہ سے دلچسپی ہوئی کہ شاید یہ ’’شر‘‘ کسی شاعر کے ذھن میں آ جاتا تو وہ اسے تخلص کر لیتا۔میرا خیال ہے یہ لفظ ’’شر‘‘ ہی ہے میں نے بار بار دیکھا۔ ہمارے ہاں شاعروں نے عجیب و غریب تخلص بھی رکھے۔ مثلاً ایک احمق پھپھوندوی تھے جو احمق تخلض کرتے تھے۔ مجھے پھل آگروی یاد آ گئے۔ بہت ہی معصوم اور پیارے سے شاعر تھے۔ بس انہوں نے پھل تخلص کیا اور پھر وہ جس مشاعرے میں آئے تو کچھ پھل وہ ہاتھ میں لے کر آتے۔ بہرحال اس سے انفرادیت تو حاصل ہو جاتی۔ جیسے امام دین گجراتی کو اپنا ہی امتیاز حاصل ہے۔ مختلف و ممتاز ہونے کا خوبصورت شاعر کا خوب صورت شعر یاد آ گیا۔ منیر نیازی کہتے ہیں: مجھ میں ہی کچھ کمی تھی کہ بہتر میں ان سے تھا میں شہر میں کسی کے برابر نہیں رہا دوسری دلچسپ بات نے ہمیں مزہ دیا وہ شاہد آفریدی کی میڈیا سے گفتگو ہے۔لطف اس بات پر آیا کہ وہ گفتگو زیادہ اچھی کرتے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کھلاڑی اچھے نہیں رہے۔ وہ اپنی نوعیت کے سب سے اچھے کھلاڑی تھے۔شاستری نے ان کا نام بوم بوم ایسے ہی تو نہیں رکھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ سیاست میں بھی بوم بوب ثابت ہو سکتے ہیں۔وقت کا پتہ کچھ نہیں ہوتا کہ وہ بہت عرصے کے بعد میڈیا میں اس طرح کھل کر باتیں کر رہے ہیں۔ اصل میں اس وقت کرکٹ ہی باقی رہ گئی ہے اور اس میں بھی سیاست رہ گئی ہے۔ تھوڑی بہت سیاست تو درست ہے مگر اب تو بہت کچھ طشت ازبام ہو رہا ہے۔ محمد عامر کی الگ پریس کانفرنس ہے جس نے کوچز کے الزامات کے جواب دیتے ہوئے الٹا ان کو مورد الزام ٹھہرایا۔ آفریدی نے اچھی بات کی کوچز اور سلیکٹرز کو اس سطح پر نہیں آنا چاہیے۔ اس نے درست کہا کہ ایک اتنے بڑے پلیئر کو بتائے بغیر فیصلہ لینا مشکل ہوتا ہے۔ واقعتاً کسی کو ڈراپ کرتے وقت اسے ذھنی طور پر تیار کرنا چاہیے کہ وہ دوبارہ کم بیک کر سکے۔ مقصد یہ ہے کہ اندر کی لڑائیوں کو افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکتا ہے۔ عمران خاں تو اپنے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔بگڑتے ہوئے حالات کو دیکھ کر منیر یاد آ جاتے ہیں: مریض عشق پر رحمت خدا کی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دعا کی حالات میں ایک اضطراب ہے۔ وہ مصرع ہے ناں!’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ خاں صاحب کہتے ہیں کہ انہیں اڑھائی سالہ کارکردگی پر فخر ہے جبکہ اپوزیشن کہتی ہے کہ اقتدار کا یہ دورانیہ عوام پر عذاب ہے ۔ بظاہر اب فیصلہ عوام پر ہی چھوڑا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے ابھی خان صاحب کے پاس وقت ہے اور قابل فخر کام ہو سکتا ہے کون ہے جو اچھے موسموں کے لئے دعاگو نہیں۔اس بات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ کورونا کی ایس او پیز کی پابندی کے لئے فوج کو کیوں بلایا گیا! بات درست کہ یہ نااہلی کا پتہ دیتی ہے مگر آپ کو یاد ہو گا کہ ن لیگ نے بھی تو واپڈا کو درست کرنے کے لئے فوج بلائی تھی اور پھر پتہ چلا کہ ہر محکمہ ہی بگڑا ہوا تھا۔ سب کو ہر برے وقت میں پھر فوج ہی کیوں نظر آتی ہے۔ عوام بھی بالکل ذمہ دار نہیں۔ پھر کرکٹ کی طرف آتے ہیں شاہد آفریدی کی ایک بات سچ مچ دل کو لگی کہ کوچز کا کام صرف یہ سکھانا نہیں ہوتا کہ شاٹ کیسے کھیلنی ہے یا بائولنگ کیسے کرنی ہے۔ ایک چیز تربیت بھی ہوتی ہے کہ موٹی ویشنل رول وہ ادا کرے۔ شاہد آفریدی نے chicken hearted کی اصطلاح استعمال کی کہ ایسا کھلاڑی کبھی نہیں بڑا بن پاتا۔ ویسے تو مرغی کے دل والا ہو گیا‘فارسی اردو میں ’’بزدل‘‘ استعمال کیا جاتا ہے بکری کے دل والا بزبکری کو کہا جاتا۔ آپ نے مضمون پڑھا ہو گا اگر کوئی غم نہیں تو بکری پال لو۔ خیر بال کی کھال کیا اتارنی۔بات ہو رہی تھی۔ کرکٹ کی تو ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ بابر اعظم نہایت اچھا کھیل پیش کر رہا ہے اس نے کوہلی کا ایک اور ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شاہد آفریدی جیسا شخص بھی ذمہ داروں میں لینا چاہیے۔وہ حوصلہ مند کھلاڑی ہے۔ پتہ نہیں عمران خاں کی اس پر نظر کیوں نہیں پڑی۔ تاہم اس پر کوئی بھی نظر پڑ سکتی ہے۔ وہ سیاست میں بھی آ سکتے ہیں۔ آنکھوں سے نمی پائوں سے چھالے نہیں جاتے اے عشق ترے درد سنبھالے نہیں جاتے