گیارہ اکتوبر کے کالم پر اولین تبصرہ پروفیسر محی الدین اور راؤ خالد کی طرف سے آیا، حسن اتفاق کہ دونوں حضرات اخبارات کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، راؤ خالد اس زمانے میں اپنے اخبار کے لیے پارلیمنٹ کی سرگرمیوں پر رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔آج کل روزنامہ 92کے ایڈیٹر ہیںاور بڑے جاندار کالم بھی لکھا کرتے ہیں۔راؤ صاحب سینیٹ کی پریس گیلری میں اس وقت موجود تھے جب نواز شریف کے ساتھ ایک جھڑپ کے بعد یہ کہانی سنائی تو نواز شریف کے ردّ عمل کا ذکر کرکے محظوظ ہوتے رہے۔ پروفیسر محی الدین ہفتہ روزہ رسائل کے لیے لکھا کرتے تھے ، آج بھی ان کے مضامین مختلف اخبارات کی زینت بنتے ہیں، محی الدین نے فون پر بتایا کہ آپ کا کالم پڑھنے کے بعد حامد ناصر چٹھہ صاحب سے بات ہوئی اور انہیں آپ کے کالم کا نفس مضمون سنایا تو چٹھہ صاحب نے کہا ، بھائی ! اس میں تعجب کیا ہے؟ یہی بات میاں نواز شریف مجھ سے بھی کہہ چکے تھے کہ گورنر جیلا نی کو منصب سے ہٹانے کے لیے محمد خان جونیجو سے بات کروں جو میں نے کی، نتیجتاً جونیجوصاحب کی تحریک پر صدر پاکستان نے گورنر جیلانی کی جگہ مخدوم سجاد حسین قریشی کو پنجاب کا گورنر نامزد کیا تھا۔ یوں پروفیسر محی الدین کی وساطت سے محسنوں کی فہرست میں دو ایسے افراد کا اضافہ ہوگیا جن کے احسان کا بدلہ چکتے ہوئے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان دونوں کی داستان بجائے خود بڑی دلخراش اور سبق آموز ہے، اسے آئندہ کے لیے اٹھائے رکھتے ہیں۔ ملتان سے عبدالرحمن خان نے ایک پوسٹ بھیجی ، جس میں لکھا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے سوا فوج کے ہر سربراہ کے خلاف نواز شریف کو شکایت رہی۔ عبدالرحمن کی غلط فہمی بھی دور ہونا ضروری ہے، جنرل جیلانی کی طرح ضیاء الحق کے احسانوں کا بدلہ چکانے کی کوشش ان کی زندگی میں ہی شروع ہوکر بعد تک جاری رہی۔ ہوا یہ کہ جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم محمد خان جونیجو کے ایماء پر اپنی جلاوطنی ترک کرکے پاکستان آئیں، تو ان کے استقبال ، مقبولیت اور سیاسی قوت کے اظہار کے لیے ملک بھر ، خصوصاً سندھ سے بڑی تعداد میں لوگ لاہور ائیرپورٹ پر لائے گئے۔ بلاشبہ لاکھوں لوگ اس استقبالیہ جلوس میں شامل تھے، بے نظیرکی اٹھان کو دیکھتے ہوئے سیاستدان ہی نہیں ، صنعتکار اور سرمایہ دار بھی اظہار وفاداری کے لیے کرنسی نوٹوں سے بھرے بریف کیس لیے حاضریاں بھرنے لگے۔ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے لیے تجوریوں کے منہ کھولنے والے سرمایہ کاروں کی ایک فہرست اپنے ہاتھوں سے بنا رکھی تھی، اس فہرست میں پہلا نام وزیراعلیٰ پنجاب جناب نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کا تھا، جنہوں نے مبلغ 50لاکھ روپے نذر گذاری۔ وہ فہرست یقینا ابھی تک اعجاز الحق کے پاس محفوظ رہی ہوگی۔ شریف برادران نے حفظِ ما تقدّم کے طور پر بے نظیر کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی کوشش کی مگر بھٹو کی مغرور بیٹی نے خطیر رقم فیاضانہ مسکراہٹ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے سیاسی حمایت کو حقارت سے مسترد کردیا، بے نظیر کے سامنے یہ ہمت ہار چکے تھے، بعد میں حمید گل اور مرزا اسلم بیگ کی ہزار کوششوں سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے۔ 17اگست 1988ء کو جب ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں شہید ہوگئے، اس وقت نواز شریف ’’مری ‘‘ کی مال روڈ پر چہل قدمی کررہے تھے، اسسٹنٹ کمشنر ’’مری‘‘ (جو میرے گہرے دوست تھے اور ہیں) نے جھٹ سے اس جانکاہ حادثے کی اطلاع نواز شریف کو دی تو یہ خبر دینے والے کے بقول میاں صاحب کا ردّ عمل حیرت انگیز حد تک سرد مہری کا تھا، انہوں نے فوراً اپنی گاڑی کی طرف جانے کی بجائے پہلا سوال کیاکہ اب ’’صدر‘‘ کون بنے گا؟فوراً آئین کی کاپی لانے کو کہا، سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کا یہ ردّ عمل حاضرین کو کچھ غیرفطری سا محسوس ہوا،خصوصاً اس صورت میں جب یہ حادثہ ان کے اپنے صوبے میں واقع ہوا تھا۔ قومی اسمبلی ضیاء الحق تحلیل کرچکے تھے، غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کا اعلان ہوچکا تھا، حادثے کے دنوں سینیٹ کا اجلاس جاری تھا، اگلی صبح جب سیینٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ’’ایوان ‘‘ میں داخل ہوا تو مہمانوں کی گیلری میں نواز شریف بھی موجود تھے، ابھی اپنی نشست پر بیٹھنے بھی نہیں پایا تھا کہ جنرل فضل حق میرے پاس پہنچ گئے ، وہ خود بھی سینیٹ کے ممبر تھے۔ نواز شریف کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے، ہم غلام اسحاق سے ملے اور انہیں انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے لیکن وہ مان نہیں رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس بارے میں ان سے بات کریں۔ ان کے کہنے پر ایوانِ صدر فون کیا اور صدر صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر پہنچ گیا، غلام اسحاق خان چیئرمین سینیٹ تھے اور اسی منصب کی وجہ قائم مقام صدر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ صدر گہرے صدمے کی حالت میں بہت فکر مند اور تھکے ہوئے دکھائی دیتے تھے، انہوں نے ضیاء الحق کی شہادت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ، مرحوم اتنے بڑے ’’بوٹ‘‘ چھوڑ گئے کہ میرے پاؤں اس کے لیے بہت چھوٹے ہیں، وہی ان مشکلات کو اٹھائے پھرتے تھے، میرے کندھے ابھی سے ٹوٹنے لگے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے فوج کے سربراہ اسلم بیگ کی تعریف کرتے ہوئے بہت زیادہ ممنونیت کا اظہار کیا، شائد وہ کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے کے لیے ان کی رائے سے متفق نہ ہوتے ہوئے بھی اسے نظرانداز کرنے سے ہچکچا رہے تھے، اب وہ خاموش ہوکر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے تو وہ سب کچھ عرض کیا جو فضل حق نے کہا تھا۔ یہ سن کر صدرصاحب نے کہا کہ انتخابات کے بارے میں آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟عرض کیا کہ آپ کو اسلم بیگ کا ضرورت سے زیادہ ممنون ہونے کی ضرورت نہیں، اسلم بیگ صاحب خود دباؤ میں ہیں، آپ کو صدر تسلیم کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں کیونکہ ان کی اپنی ذات شکوک کی زد میں ہے، وہ کوئی دوسرا قدم اٹھانے کی حالت میں نہیںہیں، اگر ہوتے تو آپ کو آرمی ہیڈ کوارٹر بلا کر صدارت سنبھالنے کی درخواست نہ کرتے۔ (جاری)