میرا پاکستان ہے نہ تیرا پاکستان ہے اُس کا پاکستان ہے جو صدرِ پاکستان ہے جنرل محمد ضیاء الحق کی مارشل لائی دہشت کے دنوں میں بانی ِ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی برسی پر گڑھی خدا بخش میں بینر پر یہ شعر شاعرِ عوام حبیب جالب ؔ سے منسوب کر کے کسی جیالے نے بیچ چوراہے پر دو کھمبوں کے درمیان باندھ کر لگا دیا۔جالب ؔ صاحب جیل میں تھے۔ اُن تک یہ شعر پہنچ چکا تھا۔کراچی پریس کلب میں پیغام بھجوایا ’’یہ کسی مبتدی شاعر کا شعر ہے‘‘۔حکمرانوں کے خلاف جب میں شعر کہتا ہوں،تو شعری محاسن اور قافیہ اور ردیف کا پورا خیال رہتا ہے‘‘۔ پیغام کے ساتھ جنرل ایوب خان کے دور میں لکھی اپنی یہ غزل بھی بھیجی: فرہنگی کا جو میں دربان ہوتا /تو جینا کس قدر آسان ہوتا/میرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے/میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا /جھکا کے سر کو ہوجاتا جو سر میں /تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا /زمینیں میری ہر صوبے میں ہوتیں/میں واللہ صدرِ پاکستان ہوتا سن1980میں کراچی پریس کلب میں جالب صاحب کو لائف ممبر شپ دینے کی تقریب میں جب یہ غزل جالب صاحب نے پڑھی تو ہزاروں کا مجمع کھڑے ہوکر داد دے رہا تھا۔غزل تو جنرل ایوب خان کے خلاف لکھی گئی تھی۔مگر جا تو صدر ضیاء الحق کی طرف رہی تھی ۔اس سے اگلے دن اس غزل کی پاداش میں جیل جا پہنچے۔یہ جو جالبؔ صاحب کے حوالے سے سابقہ صدور یاد آئے ،تو سبب جمعرات کی سہ پہر اسکرینوں پر بے بسی کی تصویر بنے صدر ڈاکٹر عارف علوی تھے جنہیں دیکھ کر بیک وقت محاورے کی زبان میں ہنسی اور رونا ساتھ آیا۔مگر یہ بحث تحریک انصاف کے نامزد کردہ صدر ڈاکٹر عارف علوی پہ کیا منحصر ہے۔کم و بیش تین دہائی سے یہ تماشہ ہر صدرِ ملکت کے خلا ف لگتا ہے۔کہ پارلیمانی روایت میں یہ شق ڈال دی گئی ہے کہ ہر سال پارلیمان کے مشترک اجلاس میں صدرِ مملکت قوم سے خطاب میں مسلح افواج کے سربراہان ،غیر ملکی سفارت کاروں اور معززین کے سامنے رسوائی کا سودا بیچتے دکھائی دیں گے۔پورے خطاب میں محترم صدر ڈاکٹر عارف علوی کا صرف یہ جملہ سن سکا: ’’ شور مچائیں ۔لیکن بات بھی تو سنتے جائیں۔‘‘ معذرت کے ساتھ بازاری زبان کا یہ مصرع سامنے آگیا:’’گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا‘‘۔ وطن ِ عزیز میں صدرِ ملکت جیسے عہدہ ٔ جلیلہ کی بے توقیری کا آغاز کب سے ہوا،اس پر اپنی یادداشت پر زور ڈال رہا ہوںکہ آزادی کے نو سال بعد تک یہ مملکتِ خدادادِ پاکستان بے آئین سرزمین رہی۔سن1956ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم چوہدری محمد علی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ملک کو ایک دستور دیا۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بانی ِ پاکستان کے دست و بازو جو خود بھی وزیر اعظم کے منصب پر قائم تھے ،نے ملک کو ایک ایسا آئین دیا،جس میں طاقت کا سرچشمہ صدرِمملکت تھا۔اور پھر اسی رعایت سے انگریزوں کے پروردہ بتدریج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اسکندر مرزا جب گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تو سن1956ء کے آئین کے تحت ہی بغیر کسی عوامی اور پارلیمانی مینڈیٹ کے صدر بن بیٹھے۔آئین کی رو سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے منصب کی بے توقیری کا آغاز تو خیر سے معذور و مفلوج گورنر جنرل غلام محمد کے دور سے ہوگیا تھا۔اپنے وزرائے اعظم کو جس طرح وہ اپنی لقوا زدہ زبان میں گالیوں سے نوازتے تھے، اس کاذکر قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں بڑے مزے لے لے کر کیا ہے۔اسکندر مرزا 1956ء کے آئین کے تحت صدرمملکت تو بن گئے ،اور اس آئین کے تحت انہوں نے ستمبر 1958ء میں بالغ رائے دیہی کے تحت انتخابات کرانے کا اعلان بھی کردیا۔مگر یہی وہ وقت تھا جب پاکستانی فوج کے طاقت ور ترین جنرل محمد ایوب خان اپنے غیر ملکی آقاؤں کی پشت پناہی سے اقتدار پر مکمل قبضہ کرنے کی نوک پلک سنوار چکے تھے۔جنرل ایوب خان کو آخری انگریز جنرل گریسی نے نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت سے پہلے ہی یہ بات ذہن نشین کرادی تھی کہ ’’مستقبل میں فوج کے سربراہ کو بہر صورت منتخب وزیر اعظم پر فوقیت رکھنی ہوگی۔‘‘نوابزاہ لیاقت علی خان جیسے پاپولر عوامی وزیر اعظم کی زندگی میں یہ ممکن نہ تھا۔مگر جب ان کی شہادت کے بعد محلاتی سازشوں کا آغازہوا تو جنرل ایوب خان کیلئے میدا ن کھلا اور صاف تھا۔مسئلہ ٹائمنگ کا تھا۔ اکتوبر1958ء کے پہلے مارشل لاء کے بارے میں اتنا بہت کچھ لکھا جاچکا ہے کہ اسے دہرا کر الفاظ کا ضیاع نہیں کرنا چاہتا۔جنرل ایوب خان نے اپنے محسن اسکندر مرزا کو انتہائی ذلت و رسوائی سے رخصت کر کے، یقینا سیاسی جماعتوں کی نا اہلی ، فوج کی مکمل پشت پناہی اور اپنی شخصی وجاہت کے سبب باآسانی اقتدار حاصل کرلیا۔ تاہم یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جنرل ایوب خان نے ایک دہائی تک صدرِ مملکت کے عہدے کو وقا ر بھی بخشا اور یہ رعب و دبدبے کی علامت بھی بنا۔جنرل ایوب خان کا ایک بڑا عوامی تحریک کے نتیجے میں جو زوال ہوا ،اور نوبت اس حد تک آپہنچی کہ ایک دن ایوان ِ صدر میں ،صدر ایوب خان نے چند بچوں کو دیکھا جو غالباً اُن کے نواسے تھے اور بڑے زور شور سے ’’ایوب کتا،ہائے ہائے ‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے ،جو اُس زمانے میں ایوبی آمریت کے خلاف تحریک کاسب سے مقبول نعرہ تھا۔صدر ایوب خان کے بعد ، جنرل یحییٰ خان نے جس طرح اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا ۔ ۔ ۔ اور پھر ایوان صدر کو جس طرح ایک کوٹھا بنا دیا۔ ۔ ۔ اُس کے بعد سے صدرِ مملکت کا عہدہ عزت و وقار کی جگہ لعنت و ملامت کا symbolبن گیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بیچ جب لاکھوں پاکستانیوں کے گلے کاٹے جارہے تھے، تو یہ رنگیلا شاہ ایوان ِ صدر میں بیٹھا مے و ناب میں سقوط ِڈھاکہ کا جشن منا رہا تھا۔پاکستان کے سب سے سحر انگیز سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو ملک کے دولخت ہونے کے بعد بچے کچھے پاکستان کے صدر ،چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور وزیر اعظم بنے تودر اصل یہ پاکستان کی ایک نئی تاریخ کا آغاز تھا۔جس پر گفتگو ،آئندہ کیلئے اٹھا رکھتا ہوں۔