اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن زکوٰۃ ہے۔ قرآن مجید میں (82) مقامات میں نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم یکجا وارد ہوا ہے۔ شریعت مطہرہ میں زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ تنہا اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دارفانی سے تشریف لے جانے کے بعد سر زمین عرب میں ہر طرف فتنے سر اٹھانے لگے جن سے اسلامی ریاست کو نازک ترین صورتِ حال اور بحران کا سامنا کرنا پڑا تو اپنی سنگینی کے اعتبار سے سب سے بڑا چیلنج منکرین زکوٰۃ کا تھا۔ اسلامی تاریخ کے اس انتہائی نازک لمحے میں امیرالمومنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کمال جرأت ایمانی سے اس بات کا ببانگِ دہل اعلان کیا کہ جو کوئی زکوٰۃ میں کسی قسم کی تفریق اور امتیاز روا رکھے گا میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔ چنانچہ امیر المؤمنین صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف علم جہاد بلندکیا اور ان کی تلوار اس وقت تک نیام میں نہ آئی جب تک منکرین زکوٰۃ کی برپا کی ہوئی شورش پوری طرح فرونہ ہوگئی۔زکوٰۃ کی فریضیت اوراہمیت کیاہے اسے پیش نظر رکھنا ہر صاحب ایمان کاایمانی تقاضا ہے ۔ پاکستان میں ہر سال سرکاری سطح پرسیونگ بینک کھاتہ داروں سے زکوٰۃ کی مد میں اربوں روپے کاٹے جاتے ہیں۔پاکستان میں پہلی مرتبہ زکوٰۃ اور عشر کی قومی سطح یاسرکاری سطح پر کٹوتی کا نظام یا زکوۃ قانون صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں 1980ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں نافذ کیا گیا۔اس ضمن میں کہاگیاکہ زکوٰۃ قانون کے تحت فیڈرل زکوٰۃ کونسل اس قانون پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گی۔ جس کی سربراہی سپریم کورٹ کا جج کرے گا جبکہ اس کونسل کے دیگر ارکان بھی اچھی شہرت کے حامل ہوں۔اسی طرح صوبائی سطح پر بھی ہائی کورٹ کا جج اس کونسل کی نگرانی کرے جبکہ بالکل بنیادی سطح پر بالغ مسلمان، اساتذہ اور علما ء ایک مسجد میں بیٹھ کر زکوٰۃ کونسل کے چیئرمین اور دیگر ارکان کو منتخب کریں۔1983ء میں جو گزٹ شائع ہوا تھا اس کے مطابق ملک بھر میں 32 ہزار زکوٰۃ کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں۔ مرکزی سطح پر بنائی گئی کونسل کے اخراجات وفاقی حکومت جبکہ صوبائی سطح پر بنائی گئیں زکوٰۃ کونسل کے اخراجات صوبائی حکومتیں برداشت کرتی تھیں۔زکوٰۃ کے مستحق افراد کے ناموں کی فہرست مؤکل کونسل تیار کرتی تھی جبکہ زکوۃ کونسل کے ارکان پر مجموعی زکوٰۃ کا دو سے 10 فیصد تک اخراجات کی مد میں خرچہ کیا جاتا تھا۔ تاہم سال 2010ء میںپاکستان کے آئین میںکی گئی 18 ویں ترمیم کے بعدسرکاری سطح پربینک کھاتہ داروں سے زکوٰۃ کٹوٹی کا معاملہ صوبوں کو چلا گیا ۔اگرچہ زکوٰۃ کی رقم جو بینکوں سے کاٹی جاتی ہے وہ رقم فیڈرل زکوٰۃ کونسل کے اکاؤنٹ میں ہی جاتی ہے تاہم وہاں سے یہ رقم آبادی کے تناسب سے صوبوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔18ویں آئینی ترمیم کے بعد 93 فیصد حصہ صوبوں کو چلا جاتا ہے جبکہ سات فیصد وفاق کے پاس رہتا ہے۔پاکستان کے آئین میںکی گئی 18 ویں ترمیم کے بعد جو محکمے وفاق سے لے کر صوبوں کو تفویض کیے گئے ان میں زکوٰۃ کا محکمہ بھی ہے اور اس ترمیم کے بعد اب زکوٰۃ اکٹھی کرنے کا واحد طریقہ حکومت کی طرف سے زکوٰۃ کے نصاب کے اعلان کے بعد بینکوں میں سیونگز اکاؤنٹس میں جمع کروائی گئی رقم سے ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کی رقم کو منہا کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے آئین میںکی گئی 18 ویں ترمیم کے بعدآبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں زکوٰۃ اور عشر کونسل کا چیئرمین کوئی سرکاری ملازم اور یا ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہوگا۔ ریٹائرڈ جج کی عدم دستیابی کی صورت میں کوئی بھی شخص جس کی عمر40 سال سے زیادہ ہے وہ اس کونسل کا چیئرمین بننے کا اہل ہے۔صوبہ سندھ میں ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج اس کونسل کا سربراہ ہوگا اور جس کی تعیناتی کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہوگا۔ضلعی سطح پر اس کونسل کا انتخاب صوبائی زکوٰۃ اور عشر کونسل کی منظوری سے ہوگا اور اس کونسل کے چیئرمین کا تعلق نجی شعبے سے ہوگا جبکہ لوکل سطح پر کونسل کے ممبران کا انتخاب ضلعی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ہوگا۔ پاکستان میں ہر سال انفرادی سطح پر دی جانے والی خیرات کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک کے 98 فیصد گھرانے جو رقم زکوۃ، خیرات، صدقات اور عطیات کی صورت میں دیتے ہیں اس کی کل مالیت 240 ارب روپے بنتی ہے۔ ایک رپورٹ جوانٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے کے مطابق تمام آسودہ حال پاکستانی مسلمان ہر سال دل کھول کرزکوٰۃ ، صدقات دیتے ہیں اور خیرات کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کے خاص نکات میں بتایا گیا ہے کہ 2014 تک سالانہ دی جانے والی زکوٰۃ ،صدقات اورخیرات کی رقم میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور یہ 70 ارب سے بڑھ کر 240 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔رپورٹ سے اخذ کیے گئے نتائج میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انفرادی سطح پر دی جانے والی زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات کا 68 فیصد حصہ براہ راست ضرورت مند رشتہ داروں، اقرباء ،جسمانی طورپر معذور افراد اوراسکے اصل مستحقین کو دیا جاتا ہے۔ دینی مدارس اور کو اس مدمیں سے ملنے والی رقوم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ خیراتی اداروں کی طرف سے صرف تین فیصد حصہ دینی مدارس کو ملتا ہے جبکہ رپورٹ کے مطابق نجی طور پر دی جانے والی زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات کا تقریباً 30 فیصد دینی مدارس کے حصے میں آتا ہے۔اس رپورٹ میں پاکستان کے مختلف صوبوں سے دی جانے والی زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات کے اعداد و شمار دیے گئے ہیں اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہر سال 113 ارب کی زکوٰۃ ،صدقات اورخیرات دی جاتی ہے جبکہ سندھ میں78 ارب روپے، خیبر پختونخوا سے38 ارب روپے اور بلوچستان سے10 ارب روپے اس مدمیں دی جاتی ہے۔ لیکن سرکاری سطح پر ’’زکوٰۃ کٹوتی ‘‘کے موجودہ نظام پر پاکستان میں کئی لوگوں کو اعتماد نہیں ہے۔ مئی 2020میںپاکستان کے آڈیٹر جنرل نے زکوٰۃ اور بیت المال کے فنڈز میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا ہے۔یہ رپورٹ آڈیٹر جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ۔ سرکاری سطح پر’’زکوٰۃ کٹوتی ‘‘کے حوالے سے آج کے نہیں بلکہ پہلے سے یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ آیااسے درست اورصحیح مصرف میں لایا جاتا ہے؟ المختصر! مملکت پاکستان میں بنایا گیا زکوٰۃ قانون ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے۔