چارلس ڈیگال فرانس کے متنازع نہیں محبوب صدر تھے۔ جب کچھ مطلب پرست سیاست دانوں نے نہیں ان کے بہت سے سچے مداحوں نے کہا کہ فرانس اور ڈیگال لازم و ملزوم ہیں تو ڈیگال نے اس پر خوش ہونے کی بجائے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ناگزیر شخصیات سے قبرستان بھرے پڑے ہیں‘‘ ان کا یہ تاریخی جملہ اب ایک قول کی حیثیت سے مشہور ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ساتھ ایک دو حوالوں سے نہایت احترام کا رشتہ قائم ہے۔ ان جیسی سینئر سیاست دان نے یہ بیان دے کر کہ پاکستان اور عمران خان لازم و ملزوم ہیں۔اپنے آپ کو اپ گریڈ نہیں ڈی گریڈ کیا ہے۔ عمران خان کی سیاست سے سو اختلاف کے باوجود مجھے ان کی ذہانت کے بارے میں خوش گمانی ہے۔ اس لئے میرا اندازہ ہے کہ ایسے خوشامدانہ جملے کہ جو پہلے کئی اور شخصیات کے لئے بھی استعمال کئے گئے ہوں خان صاحب پر بے اثر رہیں گے۔ مگر اس کا کیاکیجیے کہ غلامی ہماری رگ و پے میں ابھی تک دوڑ رہی ہے۔ ہم کبھی بادشاہوں‘ کبھی انگریزوں ‘ کبھی جرنیلوں اور پھر سیاسی حکمرانوں کے ساتھ اظہار غلامی کرتے رہے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ کے ہم پر ایک عظیم ملک کی تخلیق کے علاوہ بھی کئی احسانات ہیں۔ انہوں نے ہمیں روایتی و ذہنی غلامی سے نجات دلانے کے لئے سر توڑ کوشش کی۔ اقبال کی شاعری نے مئے غلامی میں مست مسلمانوں کو جھنجھوڑا اور انہیں آزادی کی عظیم نعمت سے آشنا کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی تربیت انگلستان کے جمہوری معاشرے میںرہ کر ہوئی۔اس دوران قائد اعظم گاہے بگاہے برطانوی پارلیمنٹ کی کارروائی بھی دیکھتے رہے۔ قائد اعظم نے ساری جنگ آزادی خالصتاً جمہوری انداز میں لڑی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حتی المقدور اپنی جماعت مسلم لیگ اور اپنی قوم کی بھی جمہوری خطوط پر تربیت کی۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد مسلم لیگ نے اپنے قائد کا طرز عمل ترک کر کے خوئے غلامی اپنا لی۔ البتہ قیام پاکستان کے بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پاکستان کے اسلامی و جمہوری دستور کے لئے جمہوری اقدار کے عین مطابق دستوری جنگ لڑی اور بالآخر وہ ایک جمہوری دستور بنوانے میں کامیاب ہو گئے۔1956ء کے دستور میں اسلامی نظام اور بنیادی انسانی حقوق کی مکمل ضمانت دی گئی تھی۔1958ء سے پاکستان میں غلامی کے دور جدید کا آغاز ہو گیا۔ صدر محمد ایوب خان نے محلاتی سازشوں اور امریکہ کے ساتھ ساز باز کر کے فرد واحد کی حکمرانی پاکستانی قوم پر مسلط کر دی۔ انہوں نے اپنے آپ کو ’’زعیم انقلاب‘‘ اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے سیاست دانوں کوکرپٹ اور نااہل قرار دیا اور یوں جمہوریت کشی اور آمریت کی آبیاری کا کلچر رائج کیا۔ یہ کلچر ہمارے جرنیلوں اور سیاست دانوں میں ایسا راسخ ہوا کہ ایوب خان کے بعد جو بھی جمہوری حکمران یا فوجی جرنیل برسر اقتدار آیا اس نے اپنے دورِ حکومت میںحاصل ہونے والی ہر کامیابی کو اپنی ذاتی کامیابی قرار دیا۔ صدر ایوب خان دس برس تک اپنی انفرادی بادشاہت کا ڈنکا بجاتے رہے اور بالآخر ایک جمہوری اتحاد کی پرجوش احتجاجی تحریک کے نتیجے میں انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ان کے دور میں پاکستان اور ایوب خان کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سقوطِ ڈھاکہ کے سانحہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے سربراہ کے طور پر برسر اقتدار آئے تو ان سے قوم نے بڑی امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ممتاز امریکی جامعات سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ نہایت ذہین و فطین شخص تھے۔ 1973ء کے جمہوری دستور کی کامیابی کے بعد بھٹو کی شخصیت پر ان کا خاندانی وڈیرا کلچر اور ون مین شو کا وہ سحر غالب آ گیا جس کی بنیاد جنرل ایوب خان نے رکھی تھی اور اس کی آبیاری کی تھی۔ بھٹو نے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے گسٹا پو اسٹائل ایف ایس ایف فورس تیار کی۔ بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے ولی خان کو پابند سلاسل کیا اس کے علاوہ بلوچستان کی جمہوری حکومت کو آمرانہ ہتھکنڈوں سے آزادانہ کام نہ کرنے دیا۔ اس وقت کے پیپلز پارٹی کے جیالوں اور سیاستدانوں نے بھی پاکستان اور بھٹو کو لازم و ملزوم قرار دے رکھا تھا۔ جنرل ضیاء الحق تو آئے ہی لازم و ملزوم بن کر تھے۔ وہ گیارہ برس تک ملک کے بلا شرکت غیرے حکمران رہے۔ نیم جمہوری وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے مکمل جمہوری سربراہ حکومت بننے کی کوشش کی تو جنرل صاحب نے انہیں گھر بھیج دیا۔ یوں یہ ون مین شو کا آمرانہ کلچر مزید جڑ پکڑتا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد بے نظیر بھٹو برسر اقتدار آئیں وہ بیچاری ابھی اڑنے بھی نہ پائی تھیں کہ انہیں بھی ایوان اقتدار سے رخصت کر دیا گیا۔ ان کے بعد جنرل ضیاء الحق مرحوم کی سیاسی شاگرد میاں نواز شریف برسر اقتدار آئے۔ وہ تین بار اس منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ ایک دو بار ان کے اپنے دل میں ’’آل پاور فل امیر المومنین‘‘ بننے کاسودا سمایا مگر لگتا ہے کہ کسی مخلص دوست نے انہیں اس ارادے سے باز رکھا۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے لیے میدان کھلا ہے۔ سابق صدر اور تین بار وزیر اعظم پاکستان رہنے والے میاں نواز شریف بھی جیل میں ہیں۔ عمران خان کا دور حکومت ہر طرح کے خطرات سے آزاد ہے۔ نہ ہنگامی حالات ہیں‘ نہ مارشل لاء کا اندیشہ ہے۔ نہ کسی فوجی دبائو کا سامنا ہے۔ اگرچہ اپوزیشن تعداد میں بڑی ہے مگر ابھی تک وہ حکومت کے لئے کوئی بڑا خطرہ ثابت نہیں ہو سکی۔اگر عمران خان کے اندر سیاسی وژن اور ان کی ٹیم میں اقتصادی و انتظامی صلاحیت ہوتی تو قوم کو ڈیلیور کرنے کے لئے اس سے زیادہ سازگار حالات پہلے کبھی نہ تھے مگر افسوس یہ ہے کہ صرف ون پوائنٹ ایجنڈے پر شب و روز کام کر رے ہیں اور وہ ہے اپوزیشن کو ڈرانے دھمکانے کا ایجنڈا۔ وہ اپنے ساتھ معاشی ماہرین کی جو ٹیم لے کر آئے ہیں وہ بھی اپنی معاشی و فنی مہارت بروئے کار لانے کی بجائے سارا زور تاجروں‘ صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو قید و بند سے ڈرانے اور ان کے اثاثے ضبط کرنے کی دھمکیوں پر صرف کر رہی ہے جبکہ عوام کی اکثریت کو ایک وقت کی روٹی نے پریشان کر رکھا ہے۔ ڈالر 154روپے کی بلند ترین حد کو چھو رہا ہے۔ عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینی تھیں مگر ہوا اس کے برعکس اس وقت تک 15لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ادھر عمران خان کے وزیر اورمشیر اپنا زیادہ تر وقت عمران خان کی مدح سرائی اور اپوزیشن رہنمائوں کی کردار کشی پر صرف کر رہے ہیں تاکہ وہ خان صاحب کی نظروں میں پہلے سے اچھے گریڈکے مستحق ٹھہریں۔اگر عمران خان لازم و ملزوم کے اس دلفریب دھوکے کا شکار ہو گئے تو یہ ان کے لئے اور پاکستان کے لئے کوئی اچھا شگون نہ ہو گا۔ جناب وزیر اعظم اپوزیشن کے تعاون کے ساتھ بجٹ کو عوام دوست بنانے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کریں۔ خلق خدا کے اوقات بہت تلخ ہیں۔ پہلے ہی مہنگائی نے ان کی کمر دوہری کر رکھی ہے۔ اگر اوپر سے ٹیکسوں سے بھر پور بجٹ کا بوجھ ان پر لاد دیا گیا تو وہ ان کے لئے ناقابل برداشت ہو گا۔ خان صاحب اس فرمان باری تعالیٰ کو اپنی آنکھوں کے سامنے آویزاں کریں ’’اللہ کسی انسان کو اس سکت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘‘ پاکستانی سیاست میں اس سے پہلے جن جن سیاست دانوں کو پاکستان کے ساتھ لازم و ملزوم ٹھہرایا گیا ان کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ اس لئے پاکستان اور عمران خان کا لازم و ملزوم کہنا ان سے دوستی نہیں دشمنی کے مترادف ہے۔ یاد رکھیں پاکستان‘ اسلام اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں کوئی فرد نہیں۔