پچھلے دو ہفتے پاکستانی سیاست کے حوالے سے عوام کے لئے بہت دلچسپی کا باعث رہے۔ وہ جو ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کیا کرتے تھے، وہ ایک دوسرے کی کرسیاں سیدھی کرتے دکھائی دیے۔ وہ جن کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہ تھی، وہ کروڑوں روپے لگا کر لاہور جلسے کی تیاریاں کرتیں پائی گئیں۔ لیکن یہ تمام تیاریاں اور گلی گلی کوچہ کوچہ پھر کر لوگوں کو لاہور جلسے کی دعوت دینا ہرچند بے سود رہا۔ لوگوں نے گیارہ جماعتوں کے اس مشترکہ پاور شو کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور اس جلسے کے حوالے سے جو کوہ ہمالیہ سے اونچے بلند و بالا دعوے اور وعدے کیے گئے تھے، وہ زمیں بوس ہو گئے۔اگرچہ اس کا مداوہ کرنے کی ہمارے چند صحافی ساتھیوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر بھرپور کوشش کی۔ کسی نے دسمبر کی سردی کی شدت کو مورد الزام ٹھہرایا تو کسی نے قیادت کی تاخیر سے جلسہ گاہ میں آمد کو عوام کی عدم دلچسپی کا سبب بتایا لیکن ان تاویلوں سے الٹا اور مذاق بن گیا۔ غرض یہ کہ جو جلسہ اپنی ناکامی کی داستان چوبیس گھنٹوں میں تاریخ کی کتاب میں دفن کر کے منظر سے غائب ہو سکتا تھا، وہ پورا ہفتہ زیر بحث رہا اور ڈرون کیمرے کی آنکھ نے اپوزیشن جماعتوں، بلخصوص نواز شریف کی صاحبزادی کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔دوسری طرف حکومتی وزرا کی اکثریت جو کہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ اپوزیشن کی ناکامی سے شاید ان کا بازو مضبوط ہو گیا ہے، انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر مہنگائی کا طوفان نہ تھما تو لوگ پھر واپس انہی کے پاس لوٹ جائیں گے جن سے تنگ آ کر وہتریک انصاف پر اعتماد کرتے آئے تھے۔ اگرچہ اگر معاشی اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو 2013ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار چھوڑا تو پاکستان کا جاری خسارہ (کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ) اڑھائی ارب ڈالر پر تھا، جسے ن لیگی حکومت 2018 ء میں17.5 ارب ڈالر پر چھوڑ کر گئی۔ اور آج عمران خان حکومت نے محض دو سال میں اس خسارے کو نفع میں بدل ڈالا ہے۔ آج یہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس یعنی نفع میں ہے اور یہ 1.25 ارب ڈالر ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ن لیگی دور میں یہ خسارہ 2.5 ارب ڈالر سے 17.5 ارب ڈالر تک پہنچا کیسے؟ اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس خسارے کو نفع میں کیسے بدلا؟ جب 2013 ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار چھوڑا تو پاکستان کی برآمدات (exports) پچیس ارب ڈالر تھیں اور اسی سال کے اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش کی برآمدات بھی پچیس ارب ڈالر تھیں۔ پانچ سال بعد 2018ء میں جب ن لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو پاکستان کی برآمدات محض پندرہ ارب ڈالر رہ گئیں اور بنگلہ دیش کی برآمدات چالیس ارب ڈالر تک جا پہنچیں۔ یہ وہی دور تھا جب پاکستان کی بہت سی لومز اور ٹیکسٹائل ملز بند ہو گئیں اور بیشمار کاروبار پاکستان  سے بنگلہ دیش منتقل ہو گیا۔ آج پاکستان میں بند پڑی لومز اور نئی لومز ملا کر تعداد میں تقریباً پچاس ہزار ہیں، جو چل پڑی ہیں۔ اور ان سے انشااللہ روزگار کے بیشمار مواقع پیدا ہوں گے اور جب پاکستان کی اپنی پیداوار میں اضافہ ہو گا تو درآمدات میں کمی ہو گی اور برآمدات میں اضافہ ہو گا۔لیکن اس سارے سفر میں ایک سے دو سال لگیں گے اور اس عرصے میں عوام کو بنیادی ضروریات کی باآسانی فراہمی حکومت کا اصل امتحان ہے۔ قیمتوں میں توازن اور آٹا، دال، چینی کی ذخیرہ اندوزی کو روکنا اور عوام کے حقوق کا استحصال نہ ہونے دینا وہ فرض ہے، جس سے حکومت ایک لمحے کے لئے بھی نہیں چوک سکتی، اور نہ ہی عوام اس جرم پر حکومت کو کبھی بھی معاف کرے گی، خواہ مافیا کی بدنیتی اور حکومت کی صاف نیت لاکھ نظر کے سامنے ہو۔ جب انسان کے اپنے پیٹ کا سوال آتا ہے تو پھر کوئی لحاظ نہیں برتا جاتا۔اگرچہ غریب، بے گھر افراد کے لئے پناہ گاہیں اور لنگرخانے فائدہ مند ہیں لیکن حکومت کو صحت کارڈ جیسے مزید عوام دوست اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ پنجاب کے ہر خاندان کو 2021 ء تک خیبر پختونخواہ کی طرز کے صحت کارڈ دیے جائیں گے، جس سے پنجاب کا ہر خاندان سات لاکھ بیس ہزار روپے تک کا مفت علاج کروانے کا اہل ہو گا۔ اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر جہاں عمران خان کی حکومت نہیں، وہاں بھی اسی طرز پر صحت کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے۔ عمران خان نے یہ ایک ایسی زبردست مثال قائم کی ہے, جسے ہر حکومت، ہر سیاست دان کو اپنانا چاہئے کہ جن صوبوں اور خطوں میں آپ کی حکومت نہ بھی ہو، وہاں کی عوام کو بھی جو فائدہ دیا جا سکتا ہے، محض اس بدنیتی پر ایسے صوبوں کی عوام کو اچھی سہولیات سے محروم کر دینا کہ اس سے ہمیں سیاسی فائدہ ہونے کا نہیں، کہاں کی انسانیت ہے؟ اب وقت اور حالات بدل رہے ہیں۔ اب فرسودہ روایات اپنی موت آپ مر رہی ہیں۔ اب اگر دشمن کھل کر اندرونی اور بیرونی ہرکاروں پر محنت کر رہا ہے تو الحمداللہ، بائیس کروڑ عوام بھی دلیری سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اب اگر کوئی غلط خبر ٹیلیویژن یا سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہے تو وہیں ہماری عوام اس کا حقائق کے ساتھ مقابلہ کر کے اسے پاش پاش کر دیتی ہے۔ آنے والے برسوں میں انشااللہ یہ شعور بڑھے گا۔ بس ضرورت غیر متزلزل ایمان اور اپنے مقصد پر یقین کی ہے۔ جیسے اللہ کی ذات نے اپنی شان رحیمی سے پاکستان کو دنیا کے مقابلے میں کورونا وائرس سے اس نقصان سے دوچار ہونے سے بچایا ہے کہ ہم سنبھل ہی نہ پاتے، وہی رب آنے والے وقت میں بھی آسانیاں لائے گا، انشااللہ۔ منزل قریب ہے پاکستان! یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں