بدلتے وقت کے ساتھ ملکوں کے مفادات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور خارجہ پالیسی ہمیشہ مفادات کے تابع ہوتی ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں داخلی عناصر جن میں آبادی، جغرافیائی محلِ وقوع، قدرتی ذخائر شامل ہیں، اہم کردار کرتے ہیں۔خارجی عوامل کی اہمیت سے بھی اِنکار ممکن نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی ملک اَپنے گِردوپیش میں ہونے والی تبدیلیوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی سیاست میں ہلچل کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک طرف کرونا وبا نے دنیا کو متاثر کیا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقت سے عالمی سیاست میں ایک نئی سرد جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اِس پس منظر میں پاکستان کو خارجی محاذ پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جن بنیادی چیلینجز کا سامنا ہے اِس کالم میں ان پر بحث کی جائیگی۔ اِس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کوبنیادی طور پر چند اہم چیلینجز کا سامنا ہے اور رواں سال 2022کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فوکس زیادہ تر مندرجہ ذیل اِیشوز پر رہے گا جن میں چین اور امریکہ کی باہمی محاذ آرائی کے دوران چین اور امریکہ کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام، افغانستان کی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے، ہندوستان کے ساتھ مخالفانہ تعلقات کو سنبھالنے، اسٹریٹجک اتحادی سعودی عرب اور پڑوسی ایران کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام جبکہ مشرق اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش سے بچاؤ شامل ہیں۔ پاکستان کے چین کے ساتھ اِنتہائی گہرے تعلقات ہیں جو وقت کے ساتھ بہت پختہ ہوئے ہیں۔ CPEC جیسے منصوبے کے آغاز کے بعد چین اور پاکستان کے باہمی سٹریٹجک تعلقات میں ایک ٹھوس اِقتصادی جہت بھی شامل ہوگئی ہے جس کے بعد دیرینہ باہمی تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں تاہم اِن تعلقات کو تروتازہ رکھنے کے لیے مسلسل رابطوں اور مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کے اَن دیکھے نقصان سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔ پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات میں دراڑ ڈالنے اور بالخصوص چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک) کو ناکام بنانے کے لیے کئی بیرونی عناصر spoilers کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں جن سے کامیابی سے نمٹنا پاکستان کے لیے اِنتہائی اَہم اور ضروری ہے۔ سی پیک کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری کے لیے بیوروکریسی کے گنجلک طریقہ کار کو مزید آسان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی فول پروف انتظامات کرنے اور چینی خدشات کو دور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ CPEC عہدِ حاضر کے سب سے بڑے اقتصادی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شی ایٹوو ( Initiative BeltandRoad ) کا اہم جزو ہے جس کی بروقت تکمیل نہ صرف پاکستان کو اقتصادی اور تزویراتی طور پر مضبوط بنائے گی بلکہ چین کے شراکت داری والی ترقی کے نعرہ کا عملی نمونہ ہوگی۔ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین اہم امور پر قریبی اور ادارہ جاتی مشاورت جاری رہے۔ امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام شروع دِن سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو رہا ہے اور اب بھی پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے لیکن امریکہ کی چین کے ساتھ جاری تصادم کی پالیسی سے اِسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات لامحالہ متاثر ہوں گے۔ اگرچہ پاکستان اِن دو بڑی طاقتوں کی عدوات میں پھنسنے سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ ماضی میں امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے مابین سردجنگ کا حصہ بن کر پاکستان نے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا۔ لہذا اب پاکستان کو سابقہ غلطیوں سے اِجتناب کرنا چاہیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک امریکہ اور چین کے تعلقات غیر مستحکم رہیں گے اس کا براہِ راست اثر امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کی پاکستان کی کوششوں پر پڑے گا خاص طور پر کیونکہ چین کی بڑھتی ہوئی اِقتصادی اور سیاسی طاقت اور اثر ورسوخ کی روک تھام امریکہ کی اولین ترجیح ہے۔ پاکستان نے بار بار اِس بات پر زور دیا ہے کہ وہ قابل احترام بنیادوں پر امریکہ کے ساتھ تعلقات چاہتا ہے۔ ہمیشہ سے پاکستان کا یہ اصراربھی ہے کہ جنوبی ایشیا میں اِسے ہندوستان کے مقابلے میں برابری کی سطح کا برتاؤ چاہئے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا بھی ایک مشکل چیلنج ہو گا کیونکہ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں اپنی جابرانہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے اور کشمیریوں اور پاکستان کے احتجاج کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کی پالیسی کو آگے بڑھا رہی ہے تاکہ وہاں پر کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ جبکہ دونوں پڑوسیوں کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی بحالی کے دوبارہ عزم کے علاوہ کسی محاذ پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اِن حالات میں ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا قیام بہرحال ایک مشکل ٹاسک ہے۔ اِسی طرح سعودی عرب جیسے سٹریٹیجک پارٹنر اورایران جیسے ہمسایہ کے مابین جاری سیاسی کشمکش اور اِختلاف کی صورت میں بھی پاکستان کے لیے غیرجانبداری برقرار رکھنا پاکستان کے لیے ایک اور اہم چیلنج ہے جس سے عملیت پسندی کے اصولوں اور قومی مفاد کے مطابق پالیسی اختیار کرنا چاہئے۔ اَفغانستان سے امریکی افواج کے اِنخلا کے بعد افغانستان میں وسیع البنیاداور پاکستان دوست حکومت کی موجودگی میں افغانستان کے ساتھ دیرپا اور خوشگوار تعلقات کا قیام بھی ایک اور اہم چیلنج ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین پائیدار تعلقات اسی صورت میں استوار ہوسکتے ہیں جب دونوں ملکوں کے عوام بھی ایک دوسرے کے بارے میں مثبت تاثرات رکھیں۔ لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ خارجہ پالیسی کے اِن تمام چیلنجز کو دانشمندانہ اور عملیت پسندی کے انداز میں طے کیا جانا چاہئے۔