کسی دور میں غریبوں کے آنسو پونچھنے کے لیے اہل قلم اپنا حق ادا کرتے تھے، اپنی نظموں سے، اپنی غزلوں سے، نثرپاروں میں غم دوراں کے ماتم میں وہ شریک ہوتے، بے چارگان کے لیے، بے نوائوں کی نوا شاعر خستہ دل ہوا کرتے تھے۔ لہو میں ڈوبی انگلیاں ظلم کی داستان خونچکاں رقم کرتی تھیں۔ تب بھی قصیدہ خوان دربار، فرعون صفت بادشاہ کوسایہ خدا ثابت کرنے کے لیے مبالغہ کلام کو شرمندہ کرتے تھے اور دنیائے بے وقعت کو قلب کی ترازو میں سجاتے تھے۔ نگری میں اندھیرا بڑھتا جارہا ہے۔ راجہ نجانے کہاں کہاں چوپٹ ہوئے خود اندھے ہوئے جا رہے ہیں۔ اندھیری کے اس ناٹک میں ایسا شعور مچا ہوا ہے کہ ہاتھ تو کیا اب خود کے وجود کا احساس مرتا جارہا ہے۔ قبرستان متحرک ہیں، مردے موبائل ہورہے ہیں۔ عوام بے چارے عوام بدن پر سر کو لٹکائے بے روح اور بے نور پھر رہے ہیں۔ روح اور بدن جدائی لے لیں تو مٹی کے کسی گڑھے میں سما جائیں گے۔ ورنہ یہ زندہ متحرک لاشیں زمین کے اوپر بوجھ بنی اپنی مردہ زندگی کا اعلان کرتی رہیں گی۔ لوٹ مار، چوری، سینہ زوری سب ہی اندھے قانون کی اوٹ میں کرتے ہیں۔ اب عرصے سے زبان خلق، حرف اطلاع، اداروں کی خفیہ رپورٹ سے وضاحتوں کے انبار سب کو جگا رہے ہیں، بلا رہے ہیں کہ دیکھو اقتدار کی مسند پر براجمان پرائے لوگوں نے ایسے لوٹا، ایسے کھسوٹا، قوم کے نام پر قرض لے کر قوم کی چمڑی سے دمڑی بنائی، کاغذات کو زبان ملی، عدالتوں کو گواہی ملی، سزائوں کے فیصلے ہوئے، چوروں کی جعلی ناموس کی خلعتیں لباس خیانت ثابت ہوئیں۔ عوام سکون میں آ گئے مگر مجال ہے کہ چوروں کے ماتھے پر شرمندگی کا پسینہ ابھرا ہو۔ اسے برا کہہ، اس پر الزام کس، کسی کو نہ چھوڑا، اداروں کو دھمکیاں اور سب سے بڑی دھمکی ہے ہمیں چھیڑا تو مملکت کے سہارے ٹوٹیں گے۔ ہمیں چھیڑا اور ہماری چوری کا ڈھنڈورا پیٹا تو ہم ڈاکوئوں کو بلا لیں گے۔ پاکستان کو کوسنے میں یہ اندھے ہوئے جاتے ہیں۔ جنم کے اندھے ماضی میں دھمکایا کرتے تھے کہ ہم ہندوستانی ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان میں آئیں گے۔ اب ایسے بد زبان تاریخ میں دختر مشرق سے دشنام اٹھاتے ہیں۔ عوام کو فٹ بال کی طرح رگیدنے والے اتنے ڈھیٹ اور شرم سے عاری لوگ ہیں کہ بنارسی ٹھگ انہیں بااستاد یا استاد کہہ کر ان کے قدم بوس ہوتے ہیں۔ تین روز پہلے ماضی میں آنسوئوں سے دامن بھرنے والے اب کہتے ہیں کہ تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں پاکباز ہیں، یہ پیرسورام اکٹھے ہوئے پھر عوام کی یاد نے ستایا کہ عوام کو لوٹے ہوئے ایک بڑا وقت گزر گیا۔ اب نیا ڈھنگ اور نیا ڈنگ تلاشو۔ قانون اور کیسی قانون سازی۔ کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں، احتسابی ادارے سرپیٹ کر رہ گئے کہ یہ شفاف کے نام پر گدلا کام کر گئے ہیں۔ انہوں نے زمین کا گلا نہیں کاٹا، غریب کی کٹیا ہی لوٹ لی۔ پہلے ہی جھونپڑی کے سارے خواب پریشان کردیتے ہیں۔ آشیانہ بندی کے نام پر عوام کی پونجی کی تھیلی لے اڑے۔ منصوبے میں کتنے ہی چوہے نوٹ کتر کر غائب ہو گئے۔ان کا مزاج ایک ہے کہ جب بھی زندگی تنگ ہو تو میثاق کرو کہ عوام کا راستہ تنگ کرو۔ نوکرشاہی، خود ساختہ جبری شاہوں کی نوکر ہے۔ جس کا ڈنڈا اس کا سنڈا طے شدہ حکیمانہ طریقہ حکومت ہے۔ یہ ڈنڈا نوکر شاہی کے مال خانہ میں موجود ہوتا ہے۔ دھڑے باز شاہو بابو اپنی مرضی کے راجہ کے ہاتھ میں تھما کر دوسرے دھڑے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ آج کل یہ ڈنڈا غیر محتاط زبان درازوں کے ہاتھ میں ہے۔ نہ موج عقل تلاطم سے باہر ہے اور نہ زبان کے پٹھوں کو سکون میسر ہے۔ کفارے کے طور پر صوبائی پردھان منتری کی زبان کو تالو سے لگا کر بٹھا کر رکھا ہے۔ عوام کو مارنے کے لیے کئی ایک خاموش مگر کارگر نسخہ جات برائے عمل درآمد شروع کئے ہیں۔ ان میں سردست پتنگ بازی کا فروغ ہے۔ ہر دوسرے روز ایک سے ایک بری منحوس خبر کہ نوعمر بچے کی گردن تیز دوڑ سے کٹ گئی، کبھی یہ خبر کہ نوخیز بچہ گھر کا اکیلا چشم و چراغ پتنگ کی پھانسی سے بجھ گیا اور کبھی یہ خبر کہ مدرسے کا غریب طالب علم ابھی علم کی روشنی لینے گھر سے نکلا ہی تھا کہ پتنگ کی ڈور نے اس کے والدین کی امیدوں کا چراغ گل کردیا۔ سب سے بڑے مجرم وہ اندھے قاتل ہیں جو قوم کے خون پسینے کی کمائی سے واردات کے سنگھاسن پر سوار ہیں ان کے حکم اور آشیر باد سے قتل اور ڈوری پھانسی کا عام اجازت نامہ معصوم بچوں کی جان لے رہا ہے۔ مائوں کی گود اجاڑ رہا ہے۔ پھر وہ ذمہ دار ہیں جو ان بے بخت حکم داروں کی زبان اور حکم کو روک سکتے ہیں۔ کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف، سب ہی لیڈر، نیم لیڈر کچھ شیر اور کچھ گیدڑ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے کچھ اور ہی سوچ رہے ہیں۔ کتنے بچے اس ناہنجار کھیل پتنگ بازی میں ظلم کی موت مرتے ہیں، کسی عوام دوست، پاکستان دوست، غریب دوست، دین دوست کو یہ توفیق ہوئی کہ ان کے بے کس لواحقین کو پرسہ دیں۔ ان کی مدد کریں؟ یہ سب وقار ہمدردان دین و ملت روز عوام الناس کو کسی حاضر مارکیٹ نعرے پر اٹھاتے ہیں۔ آمادہ کرتے ہیں، اکساتے ہیں، اخباری دنیا میں ان کی زندگی کے نشانات نظر آتے ہیں۔ مجال ہے کسی ایک بھی شاہ سوار خطابت نے مظلومین پتنگ بازی اور کشتہ ہائے ڈور بازی کے حق میں کوئی بیان دیا ہو۔ عوام پر روزانہ بم گرتے ہیں۔ بجلی بم، گیس بم، ٹیکس بم، ٹول پلازہ بم، پانی بم، ڈالر کی پتنگ بلند بم، دھڑا دھڑ بمباری ہورہی ہے۔ مجال ہے اب کوئی دھرنے باز احتجاج کرے، شور مچائے، عوام کی اس خفیہ موت بازی پر مرثیہ پڑھے۔کھربوں روپے کے بے وقت بے ضرورت منصوبوں پر قوم کا سرمایہ ہوائے نفس کی نذر کیا۔ امریکہ، چین کو اپنی معاشیات کی ڈوری تھما کر اب قوم کو بندر کا ناچ ناچنے پر مجبور کردیا۔ جب حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو اقتدار کی سیڑھیوں پر چڑھنے کے لیے بے تاب ہو کر عوام کا نام لے کر روتے ہیں اور جب تخت نشین ہوتے ہیں تو دوسروں پر نام دھرتے ہیں اور عوام کو نجانے کس کس رنگ کا باغ دکھاتے ہیں۔ زبان درازوں کی بدنیت ٹیم رنگا رنگ جھوٹوں سے دل بہلاوے کا سماںپیدا کرتی ہے۔ جھوٹ کاغذ کی کشتی ہے۔ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے،جھوٹے پر خدائی لعنت برستی ہے۔ ملت کی اس حق پرست کشتی پر نجانے کتنے قزاق کھیوں مار بن کر سوار ہو گئے ہیں۔ ناخدا، ناخدا نہیں ہیں۔ کچھ اور ہیں۔