رمضان المبارک کی روحانی برکتیں تو شاید ہم جیسوں سے کنی کترا کر گزر جاتی ہوں گی کہ ہماری عبادتوں پہ ریاکاری کا سایہ ہے، ہمارے صدقہ و خیرات میں نمائش اور دکھاوا ہے اور سجدوں میں دل میں آباد صنم کدوں کا بوجھ۔ سو ہمارے لئے رمضان المبارک سحر و افطار کا مہینہ ہے۔ اور سحرو افطار کا مطلب ہے، دسترخوان پر طرح طرح کے کھانے، لذت کام و دہن کو نت نئے پکوان۔ لیکن وہ جنہیں دن بھر کی پوری مشقت کے بعد سوکھی روٹی اور چٹنی میسر آتی ہے ان کا رمضان کیسے گزرتا ہے۔ مہنگائی اور ضرورتوں کے پہاڑ کیسے ان پر قیامت ڈھاتے ہیں۔ سحرافطار میں طرح طرح کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے، امیر شہر نے کیا غریب شہر کے سحرو افطار کے بارے میں کبھی سوچا ہے۔ یہ اہل اقتدار اور حکمران جن کی رعیت میں اس ملک کا ہر غریب مفلس اور بے کس پاکستانی شامل ہے، کیا لمحہ بھر کو انہوں نے سوچا کہ رمضان کے تیس دن اور اس کے بعد عید کا تہوار۔ اس سے جڑے ہوئے بے پناہ اخراجات میں اس ملک کے غریب کا کیا حال ہو گا، کیسے وہ روز جیتا اور روز مرتا ہو گا؟رمضان کا مہینہ صرف شہر کے خوشحال گھرانوں میں ہی مہمان بن کر نہیں آتا۔ رمضان المبارک کا چاند اس شہر کے خستہ حال مکانوں کی بوسیدہ چھتوں پر چمکا اوراس کی چمک دھمک نے غریب شہر کے دل کو کیسی کیسی محرومیوں سے دوچار کیا ہو گا۔ سحر و افطار کے اوقات اور ان کی ضروریات کم وسیلہ لوگوں کی وہی ہیں جو مالی طور پر خوشحال لوگوں کی ہیں لیکن یہاں کس کو غریب کی پرواہ ہے غریب کے نام پر صرف سیاست ہو سکتی ہے کوئی پالیسی اس کی آسودگی کے لئے نہیں بن سکتی۔ بیانات‘ دعوے اور فائلوں میں غریب کے لئے بہت کچھ ہو رہا ہے تازہ ترین تو رمضان بازار ہیں جو متوسط اور سفید پوش شہریوں کے لئے لگائے گئے اور یہاں حالات یہ ہیں کہ روزے کی حالت میں لوگ لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر چینی‘ سبزیاں اورپھل خریدتے ہیں لیکن ان کی ذلالت اور خواری صرف لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب گرمی کے شدید موسم میں گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد باری آتی ہے تو دکاندار کہتا ہے کہ آپ صرف ایک پائو لیموں‘ دو کلو آلو اور ایک کلو پیاز سے زیادہ نہیں خرید سکتے پھر صبر اور برداشت جواب دے جاتی ہے۔ غریب شہر حکمرانوں پر پھٹ پڑتا ہے۔ چادروں میں لپٹی ہوئی عورتیں چادروں کے پلو اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیتی ہیں۔ اتنی ذلالت اور اتنا جبر، حکومت کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ مہنگائی یہاں ہمیشہ رہی ہے اور لوگ مہنگائی کے خلاف دہائیاں بھی دیتے رہے ہیں لیکن اس بار جو تبدیلی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے بے حس اور منہ پھٹ وزیروں مشیروں پر مشتمل حکومت پہلی بار برسر اقتدار آئی ہے جن میں احساس اور شرم کی رمق تک نہیں۔ اگلے روزایک منہ پھٹ انصافین وزیر کہہ رہا تھا کہ رمضان المبارک میں لوگوں کو بہت شوق ہوتا ہے فروٹ چاٹ کھانے کا، نہ کھائیں تو مہنگائی بھی کچھ نہیں کہے گی۔ کوئی اوروزیر اٹھتا ہے اور کہتا ہے دو روٹیوں کی بجائے ایک روٹی کھا لیں۔ کوئی کہتا ابھی مزید چیخیں نکلیں گی۔ بس یہی ایک بات ہے جو سچ ثابت ہوئی ورنہ تو یہاں جھوٹے بیانات اور اونچی اونچی بڑھکوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ ملک کے کمزور طبقے کے لئے کوئی سیاسی جماعت بھی مثالی حکومت قائم نہیں کر سکی۔ مگر پھر بھی اتنا ضرور ہوتا تھا کہ رمضان المبارک اورپھر عید کی آمد کے پیش نظر رمضان بازارں میں ہر طرح کی کھانے پینے کی چیزوں پرسبسڈی دی جاتی اور لوگ بازار کی نسبت کم ریٹ پر خریداری کر کے جیسے تیسے اپنا وقت گزار لیتے تھے لیکن اب کی بار صرف لوگوں کی غربت اور مجبوریوں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن بھی سرکار کے زیر انتظام رعایتی نرخوں پر اشیا کی فراہمی کا ادارہ ہے۔ اس بار ان سٹوروں پر بھی خاک اڑ رہی ہے۔ تبدیلی کا ایسا سایہ پڑا ہے کہ سٹوروں کو تالے لگے ہیں۔ میں نے اپنے علاقے میں خود جا کردیکھا ہے۔ آٹا چینی چاول جیسی بنیادی فوڈ آئٹم کے ریک خالی پڑے تھے اور وہاں کے ملازمین پر جیسے سوگ کی کیفیت طاری تھی۔ میں نے چند سوال کئے تو جواب صرف خاموشی تھی۔ ایک پورا ادارہ ہے جو تباہ ہو گیا۔ اس سے منسلک ملازمین کی نوکریاں بھی خطرے میں۔ لاکھوں لوگ اس ادارے سے بطور ملازم وابستہ ہیں رمضان المبارک میں جو ادارہ صارفین کو سہولت دینے میں ناکام رہا ہے آپ خود ہی اس کا مستقبل سوچ لیں کہ کیا ہو گا، یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کی ویب سائٹ اور فیس بک پیج پر جا کر دیکھیں وزیر اعظم عمران خان کی تصویر کے ساتھ چند بڑھکیں تحریر ہیں کہ رمضان المبارک میں 2ارب کا پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ صارفین کو بہترین چیزیں کم ریٹ پر ملیں گی۔ لیکن جب بھی صارفین ایسے سٹورز پر جا کر خالی ریک اورتالے پڑے ہوئے دیکھیں تو پھر جھوٹے بیانات اور بڑھک بازی کے ایسے اشتہاروں کے نیچے کمنپس میں اپنا غصہ خوب نکالتے ہیں۔ کاش اس حکومت کے لمبی لمبی زبانوں والے وزیر مشیر یوٹیلیٹی سٹور کے ایف بی پیج پر جائیں اور دیکھیں کہ کہتی ہے تم کو خلق خدا کو غائبانہ کیا! ۔۔۔۔۔۔سننے اور جاننے کا حوصلہ ہو تو کوئی دیوار پر لکھی ہوئی تحریرپڑھے۔ ایسے حالات میں جب ہوشربا مہنگائی نے غریب شہر پر زندگی تنگ کر دی ہو بچت کے نام پررمضان بازاروں میں اس کی عزت نفس روندی جا رہی ہو ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری افطار پارٹیوں پر پابندی ہونی چاہیے ہم سب کو انفرادی طور پربھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اپنے سرکل میں موجود ضرورت مندوں اور سفید پوشوں کی دل کھول کرمدد کریں رمضان کی روح اور عبادت کا نچوڑ یہی ہے کہ اپنے دسترخوان کو وسیع کریں اور اس کا بہترطریقہ یہ ہے کہ بساط کے مطابق ایسے ضرورت مندوں کو ’’آپ کم ازکم ایک ماہ کا راشن تحفتاً دیں۔ غریب شہر پر کڑا وقت ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی مگر اپنی مثال آپ ہے۔ رمضان المبارک کا چاند صرف شہر کے خوشحال گھرانوں میں دکھائی نہیں دیا یہ خستہ حال مکانوں کی بوسیدہ چھتوں پر بھی چمکا ہے!!