پوری توجہ اور ایماندارانہ احتیاط چاہئے ہر اس فرد کو جو قوم سے مخاطب ہوتا ہے۔ اپنی حیثیت کا خیال رہنا تو بہت ضروری ہے۔ اپنے منصب کی پہچان فراموش ہرگز نہ کرے۔ زبان، رویے، اشارے اور نیت کو بھٹکنے نہ دے۔ سب ہی ذمہ دار ہیں، جن پر لوگ اعتبار کرتے ہیں۔ جوابدہ وہ ہر شخص ہے، جس کی کفالت میں کچھ اور انسان ہوتے ہیں اور حیوان بھی زیرکفالت ہوں تو جوابدہی بڑھ جاتی ہے۔ سید انس و جاں ﷺ نے ایک قاعدہ عنائت فرمایا اسی پر کائنات کا توازن ہے۔ عدل طبیعت اور عدل حیات، دیگر اقسام عدل کی بنیاد اسی حقیقت عادلانہ پر استوار ہے۔ احساس مروت کی یہ جان ہے اور زندہ قوموں کی یہ پہچان ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھا جائے۔ اپنے دائرہ فکر سے آگے نہ بڑھا جائے اور اپنے حصار حق سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اختیار سے بڑھ کر اپنے حواس کو حرکت نہ دی جائے۔اصول، اصل قوانین معاشرت ہے کہ کلکم راع و کلکم مسئُول عن رعیتہِ مخلوق کا ہر ذی عقل مخاطب ہے کہ ہر ہر فرد کو نگہبان، ہاں ذمہ دار نگہبان بنایا گیا ہے اور ہر ہر فرد سے سوال ہو گا، احتساب ہو گا۔ ہر اس فرد اور زیرکفالت اور زیر ملکیت کے بارے میں جو باگ دار کے زیراثر ہو۔ اصول تو بالکل درست ہے۔ سادہ اور قابل عمل، انصاف رسا اور ہر شخص کی آزادی کا محافظ، لیکن کیا کرے وہ شخص جو اپنی انا کے بخار میں تپ رہا ہو اور اس کی تپش نے ہر چہار جانب ماحول کو حرارت زاھی کر دیا ہو۔ نفس، روح، رویے سب ہی حرارت کو قبول کر رہے ہوں تو پھر طبیعت کا اعتدال ایسے عنقا ہوا کرتا ہے کہ توازن ڈھونڈنے سے بھی میسر نہیں آتا۔ اب حالت یہاں تک آ گئی ہے کہ کوئی حقیقت سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ایک ماحول ضد کا ہے۔ بہت چھپی ہوئی ضد، اصلاح کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، اصلاح کی نہیں جاتی ہے۔ بہت واضح ہے کہ نیت میں سودا کسی اور بات کا سمایا ہوا ہوتا ہے۔ کیا سکندر اور کیا قلندر دونوں ہی نے لباس ادا پہنا ہوا ہے۔ کبھی تو مشترکہ مفادات کے لئے ایسے ایسے حربے ان کا لباس فریب ہوتے ہیں کہ پرجوش عوام ان کو اپنا اول قبلہ اور آخر کعبہ جان کر فریفتہ ہوئے جاتے ہیں۔ ؎ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار تک نہیں انفرادیت میں لالچ اور تمن داری کی ایسی ایسی کارستانیاں نظر آتی ہیں کہ شر بھی اپنی فطرت پر نازاں ہو۔ اور اجتماعیت کی تو بات ہی کیا۔ ہر وقت دھمکی، انتقام اور فرعونیت کے بازو دکھانے کی مشق کو سیاست قرار دیا جاتا ہے۔ جنگ ہے اور بے جا جنگ ہے کہ ہم معصوم ہیں۔ ہمارا ہر قدم سوئے منزل کا عکاس ہے۔ دوسرے شور مچاتے ہیں مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ سیاستدان اور کرسی دان سب کو معلوم ہے کہ اس سلطنت پاکستان کی خیرخواہی کے لئے وہی نظام درکار ہے جو حضرت بانی پاکستان قائداعظم ؒ نے پسند کیا تھا اور ان کی پشت پناہی کے لئے برصغیر کے مشائخ و علماء کی پوری مومنانہ فراست اور مجاہدانہ سعی و کوشش نے عوام الناس میںحس بیداری اور طلب آزادی کی قوت پیدا کی تھی اور ملک عزیز کی 70 سالہ تاریخ میں عوام کی نبض حمیت ٹٹول کر یہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ سادہ مسلمان ابھی مطالبہ پاکستان کی روح سے وابستہ ہیں یا فراموش کر چکے ہیں، لیکن دین کی دبی ہوئی چنگاری تو اچانک بھڑکتی ہے تو احساس بیدار ہوتا ہے کہ پاکستان بالآخر پاکستان ہے۔ کچھ منہ پھٹ قسم کے زور آور لوگ ہوتے ہیں جو اپنی نیم خواندگی کو بقراطیت کا نام دے کر نئے افکار کو جنم دیتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے اپنے فسادی افکار کو قوم پر مسلط کرنے کی سعی ناکام کرتے ہیں۔ ایسے لوگ یا تو پیٹ بھرے کی مارتے ہیں یا پھر اندر سے جہالت اور ناتجربہ کاری کا ایسا مرقع ہوتے ہیں کہ اپنی جہالت کو چھپانے کے لئے مذہب کا سہارا لیتے ہیں۔ ہر دور میں حکومتی گھوڑوں پر مفت کے سوار مذہب پر رائے زنی کو اپنے خلیفہ المسلمین کی دلیل قرار دیتے ہیں اور دین ملا کار فی سبیل اللہ فساد والے بہت اطمینان اور خوشی سے ایسے موقع جہالت کو ظل اللہ اور دین پرست قرار دیتے ہوئے ذرا بھی باک محسوس نہیں کرتے۔ ابھی گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان نے صحابہ کرامؓ کے بارے میں جو غیر محتاط اور بے دلیل قسم کا بیان دیا ہے وہ پوری اسلامی تحریک کی فداکارانہ تاریخ کو چڑانے کے برابر ہے۔ میثاق مدینہ اور ریاست مدینہ جیسے متبرک اور روشن تاریخی عنوانات کو اپنی فہم ناقص کے لئے بے سروپا انداز سے استعمال کرنا از خود غیر منصفانہ اور جاہلانہ انداز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دینی امور پر رائے زنی کرنے سے اپنے مزاج کے مطابق دین کو ڈھالنے کا عقل مار ارادہ ہے جو کسی بھی وقت ایک سیاسی و دینی بحران کا باعث بن سکتا ہے اور پاکستان میں مذہبی انارکی کا راستہ کھل سکتا ہے۔ گزشتہ حکومتوں میں منکرین ختم نبوت کے لئے جو نرم گوشے اختیار کئے گئے تھے اور پھر ایک طویل ملکی احتجاج کے بعد حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی اور موجودہ حکومت بھی بہت سے مواقع پر جائز احتجاج کے آثار فراہم کر چکی ہے۔ اب بھی بہت سے افراد اپنی ذاتی انا کی تکمیل کے لئے حکومت کی چولوں میں گڑگڑاہٹ پیدا کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم سے لے کر ایک عام اہلکار حکومت کو مذہب اور مذہبیات پر من مانی رائے زنی سے پرہیز کرنا ضروری ہے، ورنہ طوفان کسی بھی نام سے بے لگام ہو کر اٹھے گا اور فطرت کی تعزیریں روبہ عمل ہوں گی۔