جس طرح سردیوں کے موسم میں پہاڑی علائقوں کے بہتے ہوئے پانی کے چشمے اوپر سے جم جاتے ہیں مگر نیچے سے پانی پھر بھی رواں دواں رہتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ہے ،سندھ کی اس نمائندہ پارٹی کا۔جس کا نام پیپلز پارٹی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی جس کے جادوگر سربراہ نے تھیلے سے وفاقی حکومت نکال کر دکھائی۔ جس نے دربدر پھرتے ہوئے اور قائم مقدمات سے ڈرتے ہوئے پاکستان کے سیاستدان کو نہ صرف ملک کا وزیر اعظم بنادیا بلکہ اس کے بیٹے کی وزیر اعلی پنجاب بننے کی آس بھی پوری کردی۔ اگر ان حالات میں بھی مسلم لیگ ن میں میاں شہباز شریف کے عملی سیاسی فہم کے معترف اپنے رہنما کے ساتھ ملکر آصف زرداری کو اپنا سیاسی مرشد سیاسی پیر نہیں مانتے تو یہ ان کی تنگ دلی ہوگی۔ مگر بقول غالب : تنگی دل کا گلہ کیا یہ وہ کافر دل ہے کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشان ہوتا ایک طرف ملکی سطح پر نجی محفلوں اور میڈیا میں آصف زرداری کے زیرک ہونے اور کسی کی طرف سے سیاسی ڈاکٹر ہونے اور وہ ڈبل پی ایچ ڈی والے ڈاکٹر ہونے کے اعزازات اور تمغات کی بارش ہو رہی ہے تو دوسری طرف اس برفاب تعریف کے تلے ایک پریشان پانی بہہ رہا ہے۔ وہ پانی جو سندھ کے حصے میں آتا ہے۔ سندھ کے حصے میں ویسے بھی پانی کم اور پریشانی زیادہ آتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کم پانی آنے کا غم پیپلز پارٹی کونہیں ہوتا۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کے وڈیرے ہمیشہ سب سے پہلے اپنے کھیت سیراب کرتے ہیں اور اپنے مصنوعی ڈیم بھرتے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی قطرہ بچ جا تا ہے تو دیگر وڈیروں کے حصے میں آتا ہے۔ مگر اس بار سندھ میں سیاسی پریشانی کا جو پانی داخل ہوچکا ہے اس کی وجہ سے سندھ میں پیپلز پارٹی تو کیا اس کے حامی حلقے بھی بہت پریشان ہیں۔ ابھی وہ گزرا ہوا وقت پرانا نہیں ہوا۔ ابھی سندھ میں وہ لوگ موجود ہیں جن کے پریشان چہرے دور سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے دیگر پارٹیوں اور خاص طور پیپلز پارٹی سے بغاوت کرکے تحریک انصاف کا پرچم اٹھایا مگر جب عمران خان کی حکومت کو چار سال گزرنے کو آئے اور عمران کی سیاسی شہرت ختم ہونے لگی اور ان لوگوں کو یقین آگیا کہ اب عمران سندھ تو کیا مگر کے پی کے میں بھی نہیں جیت سکتے تو انہوں نے سیاسی مفادات کے سلسلے میں رخت سفر باندھا اور پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ پیپلز پارٹی بری یا بہتر بات یہ ہے کہ اس پارٹی سے نکلنے یا اس پارٹی میں پھر سے شامل ہونے کے لیے کسی کو بہت ساری محنت اور مشقت کرنا نہیں پڑتی۔ اس سلسلے میں میاں نواز شریف کی پالیسی تو بہت سخت ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ جو شخص میاں نواز شریف کی نذر میں وفادار نہیں رہتا،اس کو پارٹی میں شامل کرنے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ خواہ اس کے لیے میاں نواز شریف کی حکومت چلی جائے یا وہ بیرون ملک چلے جائیں۔ وہ اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں۔ جب کہ عمران خان کی پالیسی کا امتحان اب ہوگا۔ کیوں کہ اس کو چھوڑ جانے والے کم نہیں۔ مگر اب جب وہ مقبول ہوگیا ہے اور اس کے پاس عوامی طاقت آگئی ہے، اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ اس کی پارٹی میں واپس آنے کی خواہش رکھنے والوں سے کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ پیپلز پارٹی پاکستان میں تو جیسی ہے اس کا پتہ سب کو ہے مگریہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ میں اس نے اپنے حریفوں سے اپنے لیے ایک طرح کی سیاسی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔کراچی کو سیاسی طور پر فتح کرنے کی کوشش اس پارٹی نے اب تک نہیں چھوڑی مگر اندرون سندھ تو اس وقت بھی پیپلز پارٹی کی مٹھی میں ہے۔ پیپلز پارٹی کے اس اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے سندھی قوم پرستوں نے بہت کوشش کی ہے ؛مگر لوگوں نے انہیںکبھی وہ مقام نہیں دیا، جس مقام پر پہنچ کر وہ پیپلز پارٹی والوں سے نظر ملا کر بات کرسکیں اور انہیں چیلینج کریں۔ اندرون سندھ میں کچھ وڈیرے ہیں اور کچھ پیر اور تھوڑا بہت جمیعت علماء اسلام کا حلقہ اور بس۔ پیپلز پارٹی اس ساری صورتحال سے ساری زندگی کھیلتی رہی ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ جب عمران خان کا سیاسی سورج چمکا تو ان لوگوں نے بھی تحریک انصاف کا رخ کیا جو لوگ عمران خان کو معقول سیاسی لیڈر سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ لاڑکانہ کے مرحوم ممتاز بھٹو ہوں یا دادو کے سابق وزیر اعلی سندھ لیاقت جتوئی ہوں یا سابق چیف منسٹر ارباب رحیم ہوں۔ انہوں نے مل کر عمران خان کے ہاتھ تھامے مگر مجبوری کی حالت میں! جب کہ پیر پگارا اور پیپلز پارٹی کا باغی دھڑا تو ویسے بھی عمران خان کے ساتھ چلنے کے لیے مجبور تھے اور ان کی مجبوری اس وقت ان کے لیے دردسر بن گئی جب عمران خان نے نہ تو عوامی پزیرائی پائی اور نہ صوبہ سندھ میں گورنر راج جیسی کوئی پالیسی اپنائی۔ اس حالت میں وہ کیا کریں؟ انہوں نے ہمیشہ عمران خان کے نام اپنے پریشان پیغام بھیجے اور عمران خان سے ان کی سیاسی مایوسی جب پیپلز پارٹی کے ساتھ پیدا ہونے والے قریبی تعلقات کا پتہ پوچھنے لگی تب اچانک ملک میں ایک بھونچال آیا۔ عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی مگر اپنی حکومتی خاتمے سے عمران خان پھر سے ایک چمک دمک کے ساتھ ایسا پرکشش لیڈر پیدا ہوا جیسا وہ پہلے بھی نہیں تھا۔ یہ بات سچ ہے کہ پاکستان میں امریکہ مخالف سیاسی چورن بکتا ہے مگر اس چورن کو بیچنے کی کوشش کس کس نے نہیں کی؟ کیا وہ عمران خان کی طرح اس قدر مقبول ہوئے کہ لاکھوں لوگ ان کی طرف دیوانہ وار کھنچ کر آئے اور وہ لوگ بھول گئے کہ تحریک انصاف کی چار سالا سرکاری کارکردگی کیسی تھی؟ اس سلسلے میں بات صرف عمران خان ہی کرتا ہے۔لوگ تو یہ بات کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ بھلے عمران خان ہمیں معاشی طور پر کچھ نہ دے مگر وہ پاکستان کی آن بان اور شان ہیں۔عمران خان کی شخصیت میں پیدا ہونے والی اس نئی چمک کا اثر ہر جگہ پڑ رہاہے اور اس وقت سندھ بھی عمران خان کی طرف نئی امیدوں بھری آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما جانتے ہیں کہ خان صاحب کو اگر کسی نے نقصان پہنچایا ہے تو آصف زرداری ہیں اور عمران خان نے آصف زرداری سے سیاسی بدلہ لینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس وقت نئے انتخابات میں وقت بھی پڑا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ عمران خان سندھ میں بدل جانے والے اپنے سیاسی لوٹوں کو قبول کرتا ہے یا وہ پیپلز پارٹی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو لوٹا بنا کر آصف زرداری سے انتقام لیتے ہیں؟سندھ میں بظاہر تو تحریک انصاف کے لیے کوئی بڑی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آتی اور پیپلز پارٹی بھی بظاہر چین کی بانسری بجاتی دکھائی دیتی ہے مگر جس طرح موسم سرما میں پہاڑی چشموں کی اوپر والی سطح پر برف جم جاتی ہے مگر اس کے نیچے پانی رواں دواں رہتا ہے، اسی طرح پیپلز پارٹی عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے پریشان ہے کہ کہیں سندھ بھی اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔پیپلزپارٹی اس خدشے کے باعث سخت پریشان ہے۔ مگر سیاست کا اسٹیج اداکاری کا اسٹیج ہوا کرتا ہے۔ اس اسٹیج پر اداکار اپنی پریشانی ظاہر ہونے نہیں دیتے۔ وہ اپنے آپ پر ضبط کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں اس سوال پر ضبط کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ لوگ ایک بار پھر عمران خان کی طرف آرزومند آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر بلکہ پہلے سے بھی کچھ زیادہ اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں سندھ میں لوگ عمران خان سے نہ مل جائیں!!