28 اپریل 2022ء جمعرات کو پاکستان کی وفاقی شریعت عدالت نے پاکستان کی وفاقی حکومت کو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ بند کرنے کا حکم دے دیا ہے اور ربا، کی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دے کر واضح کیا ہے کہ بنکوں کی جانب سے اصل رقم سے زائد رقم کی وصولی ربا ہے اور اسلام، آئین پاکستان اور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ سود کے لیے سہولت کاری والے تمام قوانین اور شقوں کو بھی غیر شرعی قرار دے کر 31 دسمبر 2027 ء تک تمام قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ سود سے پاک بنکاری نظام بنانے سے معیشت پر منفی اثرات کا حکومتی موقف عدالت نے مسترد کر دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ حکومت اندرون اور بیرون ملک تمام قرضوں کو سود سے پاک نظام کے تحت لائے۔ وفاقی شریعت عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے اسٹرٹیجک پلان کے مطابق تیس فیصد بنکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی ہے چنانچہ اسلامی اور سود سے پاک بنکاری نظام کے مکمل نفاذ کے لیے پانچ سال کا وقت کافی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ سامنے آنے میں بیس برس کا طویل عرصہ لگا ہے لیکن حقیقت اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے کہ سود کے ظالمانہ نظام کے خلاف پہلی درخواست تیس جون1990ء کو دائر کی گئی تھی۔ اس طرح سود سے نجات کی عدالتی جدوجہد کو اب تک اکتیس برس سے زائد ہو چکے ہیں۔وفاقی شریعت عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے اس کے سواکوئی دوسرا فیصلہ ممکن ہی نہیں تھا سود کے غیر شرعی اور قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہونے میں دو آرا ء نہیں۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم نے دینی احکامات کوپس پشت ڈال دیا اورہمارے حکمران اپنی عملی زندگی میں اس حکم کی نفی کرتے رہے ۔ حکمران قرآن مجید میں دیئے گئے احکامات الٰہی سے صاف منکرہوئے ۔ جوہم پر فرض ہیں۔ اسی طرح حکمران نبی کریم ﷺ پرجان فداکرنے کے دعوے دار ضرور ہیں لیکن منکرات سے بچنے کے لئے آپ ﷺ نے جوحکم صادر فرمایا وہاں منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہم کسی ایسی ہندویا یہود و نصاریٰ سٹیٹ کے شہری نہیں ہیںکہ جہاں ہمیں اپنے دین پرچلنے پرقدغن اوردینی امور کی بجا آوری پر پابندی عائد ہو۔حکمران وہ سب کچھ بھول چکے ہیں۔اگرہم بھولے نہ ہوتے تو پھر ہم اس سودی لین دین کی لعنت میں گرفتار نہ ہوتے۔ قرآن مجیداوراحادیث نبوی میں سود کی حرمت کا بیان موجود ہے۔قرآن مجید کی سب سے طویل سورہ بقرہ کی آیت 275، 276، 278 میں سودکی حرمت کا دوٹوک حکم دیاگیاہے جبکہ احادیث نبویﷺ میں سودخوری پر واضح طور پرکڑی اورسخت وعید سنائی گئی ہے ۔حضرت ابو ہریرہُ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ ) بہرکیف! وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھاہے کہ اسلامی نظام معیشت ربا کی ممانعت کرتا ہے اور ربا کی روک تھام ہی اسلامی نظام معیشت کی بنیاد ہے۔ اس فیصلے کی تفصیلی وجوہات دی گئی ہیں، قرآن و سنت کی روشنی میں ربا کی ممانعت کی گئی ہے۔وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھاکہ حکومت پاکستان عدالتی فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنائے ۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ربا کو ختم کرنا مذہبی اور آئینی فریضہ ہے اور اسلامی نظام معیشت قابل عمل طریقہ کار ہے اس سے ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو گی۔ ربا مکمل طور پر ہر صورت میں غلط ہے۔ عدالت نے حکومت کو اندرونی و بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ربا سے پاک نظام زیادہ فائدہ مند ہو گا، یہ کیس سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے دو دہائی قبل وفاقی شریعت عدالت کو واپس بھجوایا گیا تھا۔ جس میں عدالت نے تمام فریقوں اور ان کے وکلاء کو سنا۔ عدالت نے قرار دیا کہ انٹرسٹ فری بینکنگ قابل عمل بینکاری ہے ۔ عدالت وفاقی حکومت کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتی جس میں وفاق نے کہا تھا کہ یہ قابل عمل نظام نہیں ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ملک میں ربا سے پاک بینکاری بھی ہو رہی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا قانون بھی سود سے پاک بینکاری کی اجازت دیتا ہے۔ اس لئے ربا کی موجودہ تمام صورتیں ممنوع ہیں، ملکی قوانین میں جہاں بھی انٹرسٹ کا لفظ آتا ہے اسے ختم کیا جائے، شرعی عدالت نے یکم جون 2022ء سے سود لینے سے متعلق تمام شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ان قوانین میں ترمیم کی جائے، عدالت سمجھتی ہے کہ معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے میں وقت لگے گا تاہم ڈیپازٹ کو فوری طور پر ربا سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سودی نظام معیشت کے خلاف درخواستیں جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں سمیت 88 فریقوں نے دائر کی تھیں۔ وفاقی شریعت عدالت میں 30 جون1990ء کو سودی نظام کے خاتمے سے متعلق پہلی درخواست دائر کی گئی تھی جس کے بعد1991 میں ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی سربراہی میں عدالت کا تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس نے سودی نظام کے خلاف فیصلہ سنایا تھا تاہم اس فیصلے کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا اور حکومت کو جون2000 ء تک فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا تاہم بعد ازاں اس وقت کی جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی جانب سے اس فیصلے پر بھی نظر ثانی اپیل دائر کر دی گئی تھی جس کے بعد24 جون2002ء کو شریعت عدالت کا فیصلہ معطل کر دیا گیا اور ربا کی تشریح کے لیے مقدمہ واپس شریعت عدالت بھجوا دیا گیا تھا۔ وفاقی شریعت عدالت کے 9 چیف جسٹس صاحبان مدت پوری کر کے گھر چلے گئے جبکہ 2002ء سے2013ء تک مقدمے کی سماعت نہ ہو سکی۔ اس دوران متعدد درخواست گزار اور عدالتی معاونین انتقال کر گئے۔