ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے اِمکانات ایک دفعہ دوبارہ پیدا ہوگئے ہیں۔ اِس ہفتے یورپی یونین کے ایلچی اینریک مورا نے تہران میں ایران کے چیف مذاکرات کار علی باقری کے ساتھ دو روزہ ملاقاتیں کی ہیں،جو یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل کے مطابق"توقع سے بہتر" تھیں۔جوزپ بوریل نے جمعہ 13 مئی کو جرمنی میں جی 7 اجلاس کے موقع پر صحافیوں کو بتایا کہ "مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے اور اب وہ دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔" ان کے نزدیک تہران میں ہونے والے تازہ مذاکرات کے بعد ایران کے جوہری پروگرام پر تعطل کے شکار مذاکرات کو غیر مسدود کر دیا گیا ہے جبکہ ایک حتمی معاہدہ پہنچنے کے قریب ہے۔ دوسری طرف قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے بھی جمعرات12مئی کو تہران میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ ایرانی صدر رئیسانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران اور بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے تعطل کا شکار مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ قطر کے واشنگٹن اور تہران دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اس نے پس پردہ ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ اِیران جوہری معاہدہ،جسے باضابطہ طور پر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے، جولائی 2015 میں ایران اور امریکہ سمیت کئی عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا ایک تاریخی معاہدہ ہے۔ جس کے تحت جوہری پروگرام اور اس کی تنصیبات کو مزید وسیع بین الاقوامی معائنے کے لیے کھولنے کے عوض اِیران کو اربوں ڈالر مالیت کی پابندیوں میں ریلیف فراہم کیا جانا تھا۔ P5+1 ایران کے جوہری پروگرام کو اس حد تک ختم کرنا چاہتے تھے کہ اگر تہران نے جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا تو اسے کم از کم ایک سال لگ جائے گا،جس سے عالمی طاقتوں کو جواب دینے کا وقت ملے گا۔ JCPOA مذاکرات کی طرف بڑھتے ہوئے،امریکی انٹیلی جنس حکام نے اندازہ لگایا کہ، معاہدے کی عدم موجودگی میں، ایران چند مہینوں میں ہتھیار کے لیے کافی جوہری مواد تیار کر سکتا ہے جبکہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کی حامل ریاست بننے کے اقدام سے خطہ ایک نئے بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ اسرائیل نے عراق اور شام میں مشتبہ جوہری تنصیبات کے خلاف قبل از وقت فوجی کارروائی کی تھی اور وہ ممکنہ طور پر ایران کے خلاف بھی ایسا ہی کر سکتا ہے، جس کے ردِعمل میں شاید لبنان میں قائم حزب اللہ کی طرف سے انتقامی کارروائیوں یا خلیج فارس میں تیل کی نقل وحمل میں رکاوٹ پیدا ہوجائے۔مزید برآں، سعودی عرب نے بھی یہ عندیہ دیدیا کہ اگر ایران کامیابی سے ایٹمی دھماکہ کرتا ہے تو وہ بھی جوہری ہتھیار حاصل کر لے گا۔ JCPOA کے تحت ایران نے بہت زیادہ افزودہ یورینیم یا پلوٹونیم تیار نہ کرنے پر اتفاق کیا جو جوہری ہتھیاروں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ فورڈو، نتنز، اور اراک کی سہولیات پر بشمول طبی اور صنعتی تحقیق کے صرف سویلین مقصد کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا۔ ایران پر بہت سی دوسری امریکی پابندیاں، جن میں سے کچھ 1979 کے یرغمالی بحران سے متعلق ہیں، نافذ العمل رہیں۔ جس نے ایران کے ساتھ بین الاقوامی تجارت کو روکا ہے۔ IAEA نے 2016 کے اوائل میں تصدیق کی کہ ایران نے اپنے ابتدائی وعدوں کو پورا کیا ہے۔ اَمریکہ، یورپی یونین، اور اقوام متحدہ نے اپنی پابندیوں کو منسوخ یا معطل کرکے جواب دیا۔ اوباما اِنتظامیہ نے تیل کے شعبے پر ثانوی پابندیاں ہٹا دیں، جس سے ایران کو تیل کی برآمدات تقریباً اس سطح تک بڑھانے کی اجازت ملی جو پابندیوں سے پہلے تھی۔ امریکہ اور کئی یورپی ممالک نے اِیران کے منجمد کیے گئے 100 بلین ڈالر کے اثاثوں کو بھی غیر منجمد کر دیا۔ تاہم، 2018 میں صدر ٹرمپ کی جانب سے اَمریکہ کو اِس معاہدے سے نکالنے اور بینکنگ اور تیل کی سخت پابندیوں کو بحال کرنے کے بعد سے یہ معاہدہ عملی طور پرختم ہے۔ ٹرمپ کے مطابق کہ یہ معاہدہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور خطے میں اس کی پراکسی وار کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایک سال قبل تہران اور واشنگٹن نے 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے سفارتی کوششیں شروع کیں۔ یورپی حکومتوں کی جانب سے گزشتہ 12 ماہ کی شٹل ڈپلومیسی نے تہران اور واشنگٹن دونوں فریقین کو معاہدے کی تعمیل میں واپس لانے کے لیے درکار تکنیکی اقدامات پر متفق ہونے میں مدد کی ہے۔ اس کے باوجود، ایران اور امریکہ اَب بھی سیاسی معاملات پر خود کو ایک تعطل میں پاتے ہیں جس میں اَہم رکاوٹ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کی طرف سے ایران کے پاسدارانِ انقلاب کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں ڈالنے جیسے اقدام کو واپس لینا ہے۔ تاہم، امریکہ اب تک گارڈز کو دہشت گردی کی فہرست سے نکالنے سے گریزاں رہا ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادی اسرائیل اور خلیجی ممالک نے ایسے اقدام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں، ویانا مذاکرات ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے تعطل کا شکار ہیں، اِس پس منظر میں، قطر ایک اہم ثالث کے طور پر ابھرا ہے۔