پیر قمرالشکوراحمد

ارشادِربُّ العزّت ہے۔ترجمہ:یہ وُہ(انعام)ہے جِس کی خُوشخبری اللہ ایسے بندوںکو سُناتاہے۔جوایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے،فرمادیجئے:میں اِس(تبلیغِ رسالت)پرتم سے کوئی اُجرت نہیںمانگتامگرقرابت وقُربت سے محبت(چاہتاہوں ) اورجو شخص نیکی کمائے گا ہم اُس کے لئے اس میں آخرت کاثواب اور بڑھادیں گے بے شک اللہ بڑا بخشنے والاقدردان ہے۔ (الشوری:23)

حضرت عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہمااپنی تفسیر(ابنِ عبّاس)میںاِس مُبارک آیت کا شانِ نزول بیان کرتے ہیں کہ کُچھ ایسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہما جنہیں اللہ تعالیٰ نے دولتِ ایمان کے ساتھ ساتھ ما لِ دُنیا بھی فراوانی سے عطا فرمایا تھااُنہوں نے عرض کیا اگر اجازت ہوتو ہم حضور صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کے واسطے ہدایا اور مالِ دُنیا جمع کرکے پیش کریں جِس کے سبب سے مالِ دُنیا کی تنگی جاتی رہے تب یہ ارشاد ِ باری تعالیٰ نازل ہوا کہ اے حبیب صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کہہ دو کہ ہم تعلیم ِایمان اس لئے نہیں کرتے کہ ہمیں اِس کے بدلے میں کچھ مال مِلے ہاں اتنا چاہتے ہیں کہ ہمارے قرابت داروں اور اہلِ بیت سے محبت کی جائے اِن کی مو ّدت کو اپنے اُوپرلازم کرلو مُفتی احمد یار خان نعیمی اپنے حاشیۂ قُرآنِ حکیم نورُالعِرفان میں اِس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ نیک اعمال سے اِس آیت میں محبت ِ آلِ رسول صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم مُراد ہے یعنی جواِن سے محبت کرے گا ہم اسے اور نیک اعمال کی توفیق دیں گے او ر ایسے کاموں کی طاقت بخشیں گے جو اِنسانی طاقت سے بڑھ کر معلوم ہوتے ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اہلِ بیت ِ مصطفی صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کی ایک دن کی محبت پُورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اِسی محبت پر فُوت ہوا تو وُہ جنّت میں داخل ہو گیا ۔سیدناامام زین العابدین علیہِ السّلام بیان فرماتے ہیں کہ حضورنبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ،یاعلی علیہِ السّلام :بے شک اللہ تعالیٰ تُجھے اور تیری اولاد کو اور تیرے گھروالوںکواور تیرے مدد گاروں کے چاہنے والوں کو بخش دیا ہے پس تُجھے یہ خوشخبری مُبارک ہو۔

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی ٔکریم رؤف الرّحیم صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم نے فرمایا میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہِ السّلام کی کشتی سی ہے جواِس میں سوار ہو گیا نجات پا گیا اور جو اِس سے پیچھے رہ گیا وُہ غرق ہو گیا۔

جنابِ سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کے ظہورِ پر نور کے کئی قول ہیں ایک قول کے مطابق5جمادی الاوّل 5ہجری میں آپ سلام اللہ علیہا کا ظہورِ پرنور ہُوا اُس شہزادی کی عظمت کوئی کس طرح بیان کرے جِن کے نانا جان جنابِ محمدِ مُصطفیٰ صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم خاتم النّبین صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم ہوںجِن کے باباجان بابِ مدینۃالعلم حضرت مولاعلی المرتضیٰ علیہِ السّلام ہوں جوحضور صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کے فرمان کے مُطابق ہر مومن کے مولا ہیںجِن کی مادرِ گرامی سیدہ فاطمۃالزہرا سلام اللہ علیہاہوں جنہیں زبانِ وحی ترجمان نے الفاطِمۃُ بضعۃًمِّنّی (یعنی فاطمہ میرے جسم کا حصہّ ہے)فرمایا اور جو سارے جہان کی عورتوں کی سردار ہوں جن کے برادران ِ گرامی جوانانِ جنّت کے سردار ہوں روایات میں ہے کہ آپ سلام اللہ علیہا کی ولادت ِ پاک کے وقت سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم مدینہ طیّبہ سے باہر سفر میں تھے اور آقا صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کی واپس تشریف آوری کے انتظار میں احترام ِ نبوّت میں آپ سلام اللہ علیہا کانام تجویز نہ کیا گیا جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم واپس مدینہ عالیہ میں جلوہ افروز ہوئے تو سیّدہ کائنات سلام اللہ علیہا سے ملے اورسیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کو گود میںاُٹھا کر والہانہ پیار کیا اور زینب نام تجویز کیا زَین، اَبْ۔یعنی باپ کی زینت ۔ ان ہستیوں کے ہم پلّہ تو کوئی ہوہی نہیں سکتا ہم صرف سمجھنے کے لئے اِس اسمِ مُبارک تجویز کرنے میں اُمّت کو جو سبق اورتعلیم دی جارہی ہے وُہ یہ ہے کہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں بلکہ یہ باپ کے گھر کی زینت  ہوتی ہیں پروردگار ِ عالم ہمیں سیرت طیّبہ کے اِس خوبصورت گوشے کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سیّدتنا زینب سلام اللہ علیہا کی شکل و شباہت حضرت اُمّ المومنین ِ خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا پر تھی چہرۂ مُبارک نُورانی تھا اور آقا صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم اکثر یہ فرماتے کہ یہ اپنی نانی جان سے مُشابہہ ہیں چہرۂ اقدس سے جلال ِ نبوّت اور رُعبِ حِیدری آشکار تھے آپ سلام اللہ علیہا دراز قامت تھیں اعضاء نہایت مُناسب وموزوں آپ سلام اللہ علیہا کی بزرگی کی علامت ودلیل تھے۔

؎زینب سلام اللہ علیہاپیدا ہوئی زہرا علیہ السلام کے گھر روشن اس کی پیشانی ہے ،یہ ساری خدیجۂ ثانی ہے 

  پاک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گود میں لیکر کیا ہے یہ اعلان، نانی کی طرح بن کر آئی ہے دین کی یہ نگہبان

عِصمت وحیا میں سیدہ فاطمۃالزہراسلام اللہ علیہا کا عکسِ کامل ،فصاحت وبلاغت میں سیدناعلی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا مظہر کامل حلم وبردباری میںسیدنا امام حسنِ مجتبیٰ علیہِ السّلام کی مثل شجاعت واطمینان ِ قلب میں سیدناامام حُسین علیہِ السّلام سیّدالشہداء کی تصویر تھیں اُس ہستی کی عظمت کو کیسے بیان کیا جا سکتا ہے جنہیں 5سال سے زیادہ کا عرصہ قسّامِ ازل نے آغوشِ نبوّت میں کھیلنے کو عطا کیا فرمایا ۔جن کی تعلم وتربیت اُس صحن وگھر میں ہورہی تھی جن کے گھر جبرائیل ِامین اُترتے تھے جس صحنِ چمن نے بارہا وحی ٔالٰہی کے نازل ہونے کا مُشاہدہ کیا ۔اُن کے عِلم ،حِلم،وقاراور عظمت کے سامنے سرِ عقیدت ہی خم کیا جاسکتا ہے۔

؎بے اجازت جن کے گھر جبریل بھی آتے نہیں 

قدر والے جانتے ہیں عزِوشانِ اہل بیت

ْقرآن وتفسیر ِقرآن ۔ادب وعلم ِ کلام پر حاوی تھیں زہد وتقویٰ،سادگی وپاکیزگی،عبادت وریاضت،استقامت و استقلال،صداقت اور جرأت ،تواضع اور مہمان نوازی اور ایثار وقربانی اِن تمام صِفات کا سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا بنتِ علی المرتضیٰ علیہِ السّلام میں جمع ہوجانااِس امرکی واضح دلیل ہے کہ خاندانِ نبوّت میں پرورش پانے والے فی الحقیقت اِنہی اوصاف کی حامل ہستیاں ہیں۔سرکارِدوجہاںصلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کو سیّدہ زینب سلام اللہ علیہاسے والہانہ پیار تھا ایک مرتبہ آقاصلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں سونے کا ہار تحفتاًپیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم نے فرمایا میں یہ ہار اُس کو پہناؤ ںگاجِس سے مجھے زیادہ پیار ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم ہار لے کر سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کے پاس آئے اور اُن کے گلے میں پہنا دیا ۔

جب حضورِ اقدس صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم نے حجۃالوداع فرمایا تو حضرت سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا باوجود کم سِنی کے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کے ساتھ تھیں جب آقا صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کا وقتِ وصال قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم نے سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا میرے بچّوں کو میرے پاس لاؤ جب سیّدہ نے حضرت امام حسن علیہِ السّلام ،حضرت امام حسین علیہِ السّلام اور حضرت سیّدہ زینب سلام اللہ علیہاواُمّ کلثوم سلام اللہ علیہاکو حضور صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم کے قریب کیا تو آقا صلی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلم نے سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کو اپنے سینے سے چمٹا لیا شفقت کی نگاہ فرمائی سر پر ہاتھ پھیرا اور ماتھے پر بوسہ دیا۔  

امیرالمومنین حضرت مولاعلی المرتضیٰ علیہِ السّلام نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ جو حضرتِ مولاعلی علیہِ السّلام کے بھتیجے اور سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کے چچا زاد تھے سے آپ سلام اللہ علیہا کا نکاح فرمایا حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہماکو اللہ ربُّ العزّت نے رزقِ دُنیا اور مالِ دُنیا وافر عطا فرمایا تھا یعنی وُہ بہت مال دار تھے جتنے مال دار تھے اُس سے بڑھ کر سخی تھے ۔ حضرت سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کو اپنے مَیکے سے بھی یہی تربیت ملتی تھی کہ اپنی انتہائی ضرورت کے علاوہ گھر میں کچھ رکھنا ہی نہیں اور شوہر بھی قُدرت نے ویسا ہی عطا فرمایا اور ایسا اس لئے تھا کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے دیگر بہن بھائی کی تربیت حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت مولاعلی المرتضیٰ علیہِ السّلام نے فرمائی تھی ۔حضرت پیر نصیرالدین گیلانی رحمہ اللہ با رگاہِ سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا میں یُوں عرض گزار ہیں ۔ 

؎عاصی پہ یہ التفات مُشکل تو نہیں                           لینا  سندِ نجات مشکل تو نہیں

  نانا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے کہیں میری شفاعت کے لئے زینب (سلام اللہ علیہا) کے لئے یہ بات مُشکل تو نہیں ۔