سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آباو اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی۔ جریدے القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے پہلے پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی۔ طباعت و اشاعت کے ادارے سے وابستگی نہایت سود مند ثابت ہوئی۔ سیر سید احمد خان کا نام زندہ رہنا چاہئے مگر تعلیم کے میدان میں اہل پاکستان کی خدمات کو بھی فراموش نہیں ہونا چاہئے، سردار کوڑے خاں جتوئی آف مظفر گڑھ نے ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ زمین غریب طلبہ کیلئے وقف کی جو آج بھی حکومت پنجاب کے پاس ہے، اسی طرح سر صادق محمد خان عباسی نے تعلیم کیلئے اعلیٰ خدمات سر انجام دیں اور کروڑوں کے وسائل خرچ کرکے اپنا نام علم دوست کی حیثیت سے لکھوایا، اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کے نواب اللہ نواز خان نے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کو سینکڑوں مربع اراضی مفت فراہم کی، ضرورت اس بات کی ہے کہ سر سید احمد خان کی طرح ان افراد کے نام بھی نصاب کی کتابوں میں آنے چاہئیں اور سر سید احمد خان کا تذکرہ بھی اچھے لفظوں میں جاری رہنا چاہئے۔ سر سید ایسے سرسید نہیں بن گئے، اس مقام تک پہنچنے کیلئے انہوں نے بچپن سے محنت کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا۔ 1837ء میں آگرہ میںکمشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے۔ 1841ء اور 1842ء میں مین پوری اور 1842ء اور 1846ء تک فتح پور میں سرکاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران آپ نے اپنی مشہور کتاب ''آثارالصنادید'' 1847ء میں لکھی۔ 1857ء میں آپ کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران آپ نے اپنی کتاب ''سرکشی ضلع بجنور'' لکھی۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے دوران آپ بجنور میں قیام پزیر تھے۔ اس کٹھن وقت میں آپ نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اوربچوں کی جانیں بچائیں۔ آپ نے یہ کام انسانی ہمدردی کے لیے ادا کیا۔جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد آپ کو آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کے لیے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔1857ء میں آپ کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اور آپ کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی۔ 1862ء میں آپ کا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور 1867ء میں آپ بنارس میں تعینات ہوئے اور کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ سرسید کی سیاسی وابستگی کی الگ تاریخ ہے،1877ء میں آپ کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا۔ 1888ء میں آپ کو سر کا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان کی یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1864ء میں غازی پور میں سائنسی سوسائٹی قائم کی۔ علی گڑھ گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ انگلستان سے واپسی پر 1870ء میں رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس میں چھپے مضامین سے سرسید نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا اورادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ 1887ء میں ستر سال کی عمر میں پینشن لے لی اوراپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے خود کو وقف کردیا۔1869ء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں (Tatler) اور (Spectator) کے مطالعے کا موقع ملا۔ مطالعے سے ان کے وژن میں اضافہ ہوا۔ آپ نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔ '' سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُنکی جائدادیں ضبط کر لی گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جدوجہد کرتے رہے۔ 1859ء میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ء میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔1875ء میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔1863ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئی کتب کے اردو تراجم کرانا تھا۔ بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی کے دفاتر علی گڑھ میں منتقل کر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے۔آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ جب تک انگریزی کا متبادل تیار نہیں ہوتا بچوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی پڑھائی جائے اور مقامی سطح پر بچوں کو اُن کی ماںبولی میں تعلیم کا انتظام ہونا چاہئے۔