ہلکی بوندا باری سے موسم خوشگوار تھا۔ٹریل فائیو سے مارگلہ ہلز کا نظارہ مسحور کن تھا۔ میں بڑے بڑے قدم بھرتا محو واک تھا کہ ایک باریش شخص نے مجھے نام سے پکارا اور کہنے لگے’مجھے انصاف نہ ملا تو میں اپنی جان لے لوں گا‘۔میں اس نا گہانی کیفیت سے گھبرا گیا‘تاہم قریب ہی لکڑی کے بینچ پر انہیں بٹھایا۔ پانی کی بند بوتل اتفاقاً میرے پاس تھی انہیں پینے کو دی پھر ماجرا پوچھا؟ معلوم ہوا کہ ایک بڑے بیوروکریٹ نے ان کے پلاٹ پر قبضہ کر رکھا ہے‘ جعلی کاغذات بھی بنوا لئے ہیں۔تمام ثبوتوں کے باوجود کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔ بزرگوارنے میری طرف تحکمانہ دیکھتے ہوئے کہا ’سیاستدانوں کے کھیل تماشوں پر لکھنے کے بجائے عوام کے مسائل پر لکھیںتاکہ ان کے دکھوں کا مداوا ہو سکے‘ ۔ میں انہیںکیسے سمجھاتا کہ سیاستدانوں کے کھیل تماشے ہی تو ہیں جنہوں نے نظام کو ظالم اور عوام کو مظلوم بنا دیا ہے‘ جب تک یہ تماشے ختم نہیں ہوتے‘ بیورو کریسی کا قبلہ درست ہو سکتا ہے اور نہ حکومت عوام کو کوئی ریلیف پہنچا سکتی ہے۔ قارئین یہ واقعہ اس لیے ذہن میں آیاکہ مجھے کچھ دستاویزات موصول ہوئیں جن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے بیوروکریسی کے تعصب کے خاتمے کیلئے بڑا قدم اٹھا یا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی سربراہی میں 5رکنی کابینہ کمیٹی قائم کردی ہے‘جس میں وفاقی وزیر دفاع‘ وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی‘وزیر انسانی حقوق اور مشیر ادارہ جاتی اصلاحات کو شامل کیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق 9 مارچ کو وزیراعظم کی سربراہی میں منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران وزراء نے بیوروکریسی کے خلاف شکایات کے انبار لگادئیے۔ بیوروکریٹ کے کام نمٹانے میں غیرضروری تاخیر حکومتی کاوشوں میں بڑی رکاوٹ ہے۔ وزراء نے بیوروکریسی کو سیاست دانوں کے خلاف متعصب قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ارکان پارلیمان کوگریڈ سترہ کے افسر سے بھی کم اختیاردئیے گئے ہیں۔ گریڈ سترہ کے افسر کو دستاویز کی تصدیق کا اختیار حاصل ہے جبکہ پارلیمنٹرین کو یہ اختیار نہیں دیا گیا۔ ارکان پارلیمنٹ مختلف شعبوں میں طویل تجربہ اورمہارت رکھتے ہیں مگر سسٹم اور بیوروکریسی نے کسی بھی سرکاری کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شمولیت سے روک رکھا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اگر کسی سرکاری کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہوجائے تو وہ تاحیات نااہل ہوجائے گا۔ ماضی میں سیاستدانوں کو بے وقعت کرنے کیلئے جو قانون بنے‘ـاب وقت ہے کہ ان تمام قوانین اور قواعد وضوابط پر نظرثانی کی جائے۔ جب تک سسٹم اور بیوروکریسی سیاستدانوں کو سپورٹ نہیں کرتے ‘ـ عوام کے نمائندے انکے مسائل مؤثر طریقے سے حل نہیں کرسکتے۔ سیاسی وابستگی رکھنے والے بیورو کریٹس وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتے۔ ارکان نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ عوامی توقعات پر پورا اترنے کیلئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے بصورت دیگر 2023ء میں پاکستان تحریک انصاف کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم نے وزراء کے مؤقف کوتسلیم کیا اور کمیٹی تشکیل دی جو اس ضمن میںسفارشات پیش کرے گی۔ تاہم جب تک سیاست دانوں کے کھیل تماشے ختم نہیں ہوتے‘ بیورو کریسی کا قبلہ درست ہو سکتا ہے اور نہ ہی حکومت عوام کو کوئی ریلیف پہنچا سکتی ہے۔شیخ اختر حسین کو وزارت صحت کے تگڑے بیوروکریٹس کی آشیر باد حاصل تھی۔ شیخ اختر حسین نے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے سے معطل ہونے کے بعد وزارت صحت کے افسران کو ایسا خبردار کیا کہ کسی نے شیخ صاحب کی فائل کو چھونے کی جرات تک نہ کی۔ دستاویز کے مطابق کمیٹی کی جانب سے دو امیدواروں کے نام میرٹ کی بنیاد پر پالیسی بورڈ کو ارسال کیے گئے۔جن میں شیخ اختر حسین کی تعلیمی قابلیت پی ایچ ڈی‘ ایم فل اور 27سال کا تجربہ۔عمر55 سال جبکہ میرٹ کے مطابق 83.5فیصد سکور۔میرٹ میں دوسرے نمبر پر موجود عاصم رؤف کی تعلیمی قابلیت بی فارمیسی‘ـایم فل اور تجربہ22سال‘عمر51سال۔میرٹ کے مطابق82فیصد سکور۔ پالیسی بورڈ کی جانب سے19 جولائی 2018ء کے اجلاس میں انٹرویو کمیٹی کی سفارشات کی توثیق کی گئی جس کے بعد وفاقی کابینہ کو سمری ارسال کی گئی۔وفاقی کابینہ کی جانب سے 21 دسمبر2018کے اجلاس میں شیخ اختر حسین کو ڈریپ کا چیف ایگزیکٹو تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔ شیخ اختر حسین کی بطور چیف ایگزیکٹو ڈریپ تعیناتی کے بعد وزارت صحت کو شیخ اختر حسین کی پی ایچ ڈگری کی صداقت کے حوالے سے کئی شکایات موصول ہوئیں۔ وزارت صحت کی جانب سے ڈگری کی تصدیق کیلئے ایچ ای سی سے رابطہ کیا گیا۔ایچ ای سی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اوپن انٹرنیشنل یونیورسٹی کولمبو ‘ـسری لنکا کی چارٹرڈ یونیورسٹیز انسٹیٹیوٹ میں شامل نہیں ۔اس لیے پالیسی کے تحت چارٹرڈ یونیورسٹیز انسٹیٹیوٹ میں شامل نہ ہونے والی یونیورسٹی کی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔یوں وزارت صحت کی جانب سے شیخ اختر حسین کو7مارچ2019کے حکم نامے کے تحت بطور سی ای او ڈریپ کام کرنے سے روک دیا گیااور ایڈیشنل ڈائریکٹرعاصم رؤف کومتبادل امیدوار کے تحت سی ای او کا اضافی چارج دیا گیا۔وزارت کی جانب سے 7مارچ2019ء کا حکم نامہ غلطی تھی اور فیصلے کیلئے وفاقی کابینہ کو سمری ارسال کی جانی چاہیے تھی۔وزارت صحت کے پاس ایسا حکم نامہ جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا ۔ انٹرویو کمیٹی کی جانب سے شیخ اختر حسین کو اضافی تعلیم کے تحت 8اضافی نمبر دیے گئے تاہم نمبر جاری کرنے سے قبل ایچ ای سی سے ڈگری کی تصدیق کرائی جانی چاہئے تھی جوانٹرویو کمیٹی کی سنگین غلطی تھی۔ بیورو کریسی اپنے جوڑتوڑجبکہ عوامی نمائندے اپنے کھیل تماشوں میں مشغول ہیںـ‘ ایک دوسرے کی غلطیاں نکالنے اور نیچا دکھانے میں اڑھائی برس سے زائد کا وقت گزر گیا۔اللہ نے چاہا تو باقی بھی اسی کھینچا تانی میں گزر جائے گا۔