موٹروے زیادتی کیس کے تناظر میں ہر سُوایک ہی آواز سنائی دیتی ہے کہ مجرموں کو چوک میں لٹکایاجائے،یعنی سرعامِ پھانسی دی جائے۔حتیٰ کہ وزیرِ اعظم عمران خان بھی مجرموں کو چوک میں اُلٹا لٹکا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے متعدد رہنمائوں کا خیال بھی یہی ہے ۔البتہ پاکستان پیپلزپارٹی اس خیال سے متفق نہیں ’’مجرموں کو سرِعام پھانسی دی جائے‘‘کا مطالبہ کرنے والے جُرم سے نفرت کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔واقعی!یہ سب لوگ جُرم سے نفرت کرنے والے ہوتے ہیں؟یہ جائزہ بہت سہولت کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔یہاں کسی کی نیت پر شک کا اظہارمقصود نہیں، بلکہ بعض اہم پہلوئوں کی جانب توجہ مبذول کروانے کی ایک مساعی ہے۔ ہم یہاں زینب اور دیگر معصوم بچیوں کے قاتل عمران علی کی بات کرتے ہیں۔عمران علی نے زیادتی کے بعد زینب کو قتل کرکے ،چپکے سے گھر کی راہ لی ۔زینب کو جہاں پھینکا گیا ،وہ ایک کچرے کا وسیع میدان تھا،محلے کی بہت ساری گلیاں اس میدان میں پڑتی تھیں،ایک گلی میں عمران علی رہتا تھا۔عمران علی کا باپ دسمبر دوہزار سترہ میں مَر جاتا ہے،یہ باپ کی موت کے محض پندرہ بیس دِن بعد چار جنوری دوہزار اَٹھارہ کی شام کو معصوم کلی کو رَوند ڈالتا ہے۔یہ جون دوہزار پندرہ سے ایسی وارداتیں کرتا چلا آرہا تھا۔جب یہ پہلا شکا ر کررہا تھا تو ایک راہ گیر نے دیکھ لیا تھا،دونوں باہم گتھم گتھا ہوئے ، اس کی کلائی میں چوٹ آئی ، یہ جوتے چھوڑ کر وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔اس نے پہلے واقعہ سے سبق نہ سیکھااور پکڑے جانے کا ڈر بھی دامن گیر نہ ہوا۔یوں پے دَرپے واقعات کے ذریعے ظلم کی داستانیں رقم کرتا چلا گیا۔آٹھ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ، اُن میںپانچ کی اموات کاذمہ دار نکلا…جون دوہزار پندرہ سے چارجنوری دوہزار اَٹھارہ تک یہ اپنے شہر قصور بلکہ اپنے محلے ہی میں رہا۔اس عرصہ میں محلے داروں کو اس کا چلن غلط محسوس نہ ہوا؟مذکورہ بچیوں کو وحشت کا نشانہ بنانے کے علاوہ بھی ،اس نے متعدد کوششیں اور بھی کی ہوں گی ،کسی کوشش میں کسی محلے دار کو معلوم نہ پڑسکاکہ عمران علی درندہ ہے ،قاتل ہے یا کم ازکم اس کا چال چلن ٹھیک نہیں؟اُس کے گھر والوں کو بھی معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ اُن کا بچہ کچھ غلط کررہا ہے؟جو شخص لگ بھگ تین سال ایک ہی محلے کی آٹھ بچیوں کو درندگی کا نشانہ بناچکا تھا ،اُس کا محلے بھر میں تاثر نیک نامی کا تھا؟کوئی اس قدر بہروپیا بھی ہوسکتا ہے۔یادرکھیں!آدمی کا دِل ہی اُس کا چہرہ ہوتا ہے۔جب عمران علی پکڑا گیا اور معلوم پڑا کہ یہ ہی قاتل ہے تو علاقے کا ہر آدمی واقعات سنانے لگ پڑا۔ایک بڑھیا نے یہاں تک کہا کہ عمران علی نے ایک با ر اِس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ایک شخص نے کہا کہ ایک بار عمران علی نے اپنے قریبی عزیز بچہ کے ساتھ زیادتی کی اور بچے کو بہانے سے گندے نالے میں گرادیا،جب بچے کو اردگرد کے لوگ گندے نالے سے نکال رہے تھے تو یہ کھڑا دیکھتا رہا۔جن شکایا ت کا اظہار اہلِ محلہ کررہے تھے ،وہ اِن شکایات کا اظہار اُس وقت نہیں کرتے تھے ،جب تک عمران علی گرفتارنہیں ہواتھا۔شکایا ت کرنے والے سب لوگ اُس کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کررہے تھے ،مگر جب عمران علی نے اُن سے کسی موقع پر کوئی زیادتی کی تھی تو کسی ایک نے بھی پولیس میں رپورٹ درج نہیں کروائی تھی ،یادو چار محلے داروں کو اکٹھا کرکے ،اُس کو بُرا بھلا نہیں کہا تھا۔یہی وجہ تھی کہ جب تک وہ پکڑانہ گیا ،کسی نے اُس پر شک تک نہیں کیا تھا۔اب ہم تازہ واقعہ کی طرف آتے ہیں۔اس واقعہ کا ایک مرکزی کردار عابدملہی ہے۔ایک میڈیا نمائندے نے ،اُس کے محلہ کے چند لوگوں کے تاثرات لیے ہیں۔جن لوگوں نے اپنے تاثرات دیے اُنہوں نے اپنی شناخت کو ظاہر نہیں کیا۔تمام محلہ کے لوگوں نے عابد ملہی سے نفرت کا اظہار کیا اور بعض خواتین نے بتایا کہ عابد اُن کو جنسی طورپر ہراساں کرتارہتا تھا،غرض ہر ایک شکایت کا اظہار کرتا ہوا پایا گیا۔لیکن اُن میں سے کسی ایک نے کبھی کوئی درخواست تھانے میں درج نہ کروائی اور نہ ہی محلے کے کسی سرکردہ شخص سے ،اُس کی شکایت کی۔لیکن یہ سب لوگ سرِعام پھانسی کا مطالبہ کرتے پائے جارہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ سب لوگ مجرم سے خوف زَدہ ہوتے ہیں کہ شکایت نہیں کرتے ؟یا وجہ کچھ اور ہوتی ہے؟یہاں خوف کے عنصر سے انکار نہیں تو جرم سے نفرت کا مکمل اظہار بھی نہیں ملتا۔ایک شخص نے میڈیا نمائندے کو بتایا ’’ عابد ملہی ،محلہ میں اسلحہ لے کر گھومتا تھااور شام پڑتے ہی لوگوں کو ہراساں کرتا تھا،ہم تو اُس سے دُور ہی رہتے تھے ،اب جب سے وہ غائب ہے ،ہم بہت اطمینان محسوس کررہے ہیں‘‘سوال یہ ہے کہ عابدملہی کے اسلحہ لے کر گھومنے اور شام پڑتے ہی لوگوں کوہراساں کرنے کی اطلاع کبھی تھانے میں دی گئی تھی؟صاف ظاہر ہے کہ اس کا جواب نہیں میں ہے۔دوسری طرف ایک انگریزی روزنامہ کی خبر کے مطابق دوہزار تیرہ میں عابد ملہی نے ڈکیتی کی واردات کے دوران چودہ برس کی بچی سے زیادتی کی کوشش کی تھی،لیکن حیران کن طورپر اہلِ علاقہ اور پولیس نے اس واقعہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جب ایسے ہزاروں لوگ اپنے اپنے علاقہ میں جُرم کو پنپنے کا پورا موقع دیتے ہیں اور کسی طرح کی مزاحمت نہیں کرتے ،تب یہ لوگ سرِ عام پھانسی کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟یہ بات ہماری سمجھ سے بالا ہے…تاہم جو بات سمجھ میں آئی ،وہ یہ کہ سرِ عام پھانسی دینا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ،نیز ایسا عمل سماج کو کئی طرح کی پیچیدگیوں اور مسائل سے دوچار کرسکتا ہے۔