پاکستان کا 71واں یوم ِآزادی، سب کو مبارک ہو! حتٰی کہ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی! اکہتر سال کے ملک کا موازنہ، ہزار برس پرانے ملکوں سے نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان عمررسیدہ ممالک کے سامنے، دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کی بھی عمر "صرف" دو سو بیالیس سال ہے! موقع ہے کہ ذرا ٹھہر کر، پاکستان کے اصل محسنوں کو بھی یاد کر لیا جائے۔ اْن بزرگوں کے دیدار کی سعادت پانے والے، اب رہ ہی کتنے گئے ہیں۔ مگر نہ تنہا عشق, از دیدار خیزد بسا کین دولت, از گفتار خیزد پاکستان کے بانیوں کی گفتار اور اس سے بڑھ کر کردار، ہمارے سامنے آج بھی، آئینے کی طرح، جگمگا رہے ہیں! اس زود فراموش دور میں بھی، کچھ کے نام کہکشاں کے مانند، چَھٹکے ہوے نظر آتے ہیں! علی برادران، مولانا ظفر علی خاں، حسرت موہانی، اور سب سے بڑھ کر، قائد ِاعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال! مولانا محمد علی جوہر کہا کرتے تھے کہ مسلمان، اب مردہ پرست قوم ہیں۔ مگر خود جوہر مرحوم کے حق میں، مردہ پرستی بھی نہ کی گئی! قائل کو یکسر بھلا دیا گیا اور قول کو، ہماری اجتماعی فرد کا، گویا سرنامہ بن کر رہا!! مولانا کے برابر ہی ظلم، علامہ اقبال پر بھی ہوا ہے۔ یہ دنیا کے واحد شاعر ہیں، جن کے کلام سے دائیں اور بائیں، دونوں بازووں کے دھڑے، برابر فال نکالتے آ رہے ہیں! یہ شاعری ہے ہی اتنی جاذب، جو بقول ِآتش، کسی خدا رسیدہ فقیر کا بیان لگتی ہے اور ع سمجھ لیتے ہیں اس کو اپنے اپنے طور پر سامع! علامہ شاعر اور مفکر تو تھے ہی، ان کا سب سے بڑا کام، پاکستان کا نظریہ یا تصور پیش کرنا تھا۔ اس اعتبار سے، ان کا پایہ، قائد ِاعظم کے برابر ٹھہرتا ہے۔ لیکن پچھلی حکومت نے، اَور وارداتوں کے ساتھ، تاریخ پر بھی ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی! اقبال کے یوم ِپیدائش کو، عام تعطیلوں سے، نکال دیا گیا۔ ان دنوں شخصی اور اظہار کی آزادی پر بڑا زور دیا جا رہا ہے۔ خود علامہ اقبال، آزادی کے جتنے بھی قائل رہے ہوں، مادر پدر آزادی کے، سخت خلاف تھے۔ فرما بھی گئے ہیں کہ ع آزادی ِافکار، ہے ابلیس کی ایجاد! اس سے خیال نہ ہو کہ یہاں حاکم ِوقت کو للکارنے سے باز رکھنے کی کوشش یا جابر سلطان کے سامنے کلمہ ء حق بلند کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ ان کا اشارہ اس آزادی ِافکار یا اظہار کی طرف ہے، جس کے ڈانڈے، برہنہ گفتاری سے زیادہ، بیہودہ گوئی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر، دوسروں کی توہین اور مستحقان ِادب کی شان میں، گستاخی سے جا ملیں! مثلا، غیرمذہبوں کی دل آزاری، روا رکھی جائے؟ غیر قوموں پر لعن طعن کو، فروغ ہوتا رہے؟ اور خود اپنے ملک و قوم کے خلاف، زہر اگلنا، کیا گوارا کر لیا جائے؟ اور اگر یہ قابل ِگرفت ہیں، تو انہیں روکنے والا کون ہو؟ مغرب میں یہ مقولہ، بہت مقبول رہا ہے کہ تمہیں مکے برسانے کی پوری آزادی ہے، مگر وہیں تک، جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک کی آزادی، اکثر، دوسرے کے جذبات پر، حملہ آور کیوں ہوتی ہے؟ کچھ ایسی ہی صورت ِحال ہو گی، جب ایچ اے برکی مرحوم نے، بھنا کر کہا تھا کہ فریڈم آف اسپیچ مائی فْٹ( بھاڑ میں گئی آزادی ِاظہار). یا یہ کِہ لیجیے کہ ع کہنے کی حد ہے لیکن، بَکنے کی حد نہیں ہے! دنیا میں سینکڑوں ملک ہیں۔ عام تصور یہ ہے کہ ان میں، کچھ ایسے بھی ہیں، جہاں ہر طرح کی آزادی، انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ اسی طرح ایسے بھی ممالک ہیں کہ جن میں، سانس لینا بھی، محاورۃً ہی سہی، ٹیکس کی مد میں آتا ہے۔ لیکن اس وقت شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو گا، جہاں ع ہر گام پہ چند آنکھیں نگراں، ہر موڑ پہ اک لائسنس طلب