مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا ’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔‘‘ پاکستانیوں کی بدقسمتی مگر یہ ہے کہ یہاں سیاستدانوں کے سینے میں بھی دل نہیں۔ دماغ ضرور ہے جسے اقتدار کو طول اور قومی خزانہ لوٹنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عمران خان تبدیلی اور امید کی کرن بن کر ابھرے تھے ۔شفافیت ، احتساب اور، انصاف کے ذریعے تبدیلی ان کا دعویٰ تھا مگر جس طرح ماضی کے حکمرانوں کی ترقی کاغذوں اور تصویروں میںتھی عمران کی ’’تبدیلی ‘‘تھی محض دعوئوں تک محدودہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کے تین برس مکمل کرنے کو ہے ان تین برسوں میں کرپشن کے سانپ کو مارنے کے لئے سعی کرنے کے بجائے محض سانپ کے گزر جانے کے بعد لکیر کو پیٹا جا رہا ہے۔13جنوری کو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا ’’براڈ شیٹ سے ہم اپنی اشرافیہ کی منی لانڈرنگ اور تحقیقات رکوانے والوں کے حوالے سے شفافیت چاہتے ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ براڈ شیٹ کے انکشافات نے ایک بار پھر اشرافیہ کی کرپشن بے نقاب کر دی ہے۔ وزیر اعظم کے ٹویٹ کے بعد حکومت نے اب براڈ شیٹ کی لکیر کو پیٹنا شروع کر دیا ہے اور اس کا ثبوت حکومت کی طرف سے براڈ شیٹ کے معاملے کی تحقیقات کے لئے جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں قائم کی جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کا مینڈیٹ ہے۔ حکومت کے مینڈیٹ سے واضح ہے کہ حکومت ان معاملات کی تحقیقات کروانا چاہتی ہے جو اب کوئی راز نہیں۔ حکومت کی نیک نیتی کا اندازہ تو مینڈیٹ کے پانچ نقاط سے ہو جاتا ہے جو اس طرح ہیں۔ پہلا نقطہ یہ ہے کہ براڈ شیٹ کا انتخاب کیوں کیا گیا اور آئی اے آر( انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری )کمپنی کو کس نے متعارف کروایا، ڈرافٹ کس نے تیار کیا۔2۔ مینڈیٹ کا دوسرا نقطہ یہ ہے کہ 2003ء میں براڈ شیٹ سے معاہدہ منسوخ کن وجوہات پر کیا گیا۔ تیسرا نقطہ جس کی کمیٹی تحقیقات کرے گی یہ ہے کہ جنوری 2008ء میں آئی اے آر سے معاہدہ منسوخی کے بعد تصفیہ کی شرائط کیا تھیں اور ادائیگی کا طریقہ کار کیا تھا۔ چوتھا معاملہ جس کی تحقیقات کروائی جا رہی ہیں یہ ہے کہ ثالثی کی نگرانی کس طرح کی گئی پانچواں اور آخری نقطہ ادائیگی کے عمل اور برطانیہ میں حکومت پاکستان کے اثاثوں کی حفاظت کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں پتہ لگانا ہے۔ ماہرین قانون ہی نہیں یہ بات عام قاری بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کے کام کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے اور کیا کمیٹی اپنے مینڈیٹ سے باہر اپنی مرضی سے کام کر سکتی ہے اگر کرتی بھی ہے تو کمیٹی کے مینڈیٹ سے باہر کی تحقیقات کی عدالتوں میں حیثیت کیا ہوتی ہے؟ حکومت نے اگر براڈ شیٹ کے سانپ کی لکیر کو ہی پیٹا تھا تو کمیٹی کے بجائے معروف تحقیقاتی رپورٹر اور کالم نگار رئوف کلاسرا کے کالموں کے سلسلے کو ہی پڑھ لیتی۔ سوال تو یہ ہے کہ حکومت نے تحقیقاتی کمیٹی کو جو مینڈیٹ دیا ہے اس کی تحقیقات سے حکومت اور قوم کو کیا فائدہ ہو گا؟ کیا ان تحقیقات کے بعد حکومت براڈ شیٹ کو ادا کی گئی رقم واپس حاصل کر سکتی؟ یا پھر کیا حکومت جن لوگوں نے معاملہ دبابا، تصفیہ کیا ،ثالثی میں کردار ادا کیا ان سے آئی اے آر کو ادا کئے گئے 29ملین ڈالر کی رقم وصول کرے گی ؟ یہ بات عمران خان کے علم میں ہو یا نہ ہو مگر ان کی حکومت کے قانون ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں کہ براڈ شیٹ کے سانپ کی لکیر کو پیٹنے سے 29ملین ڈالر قومی خزانہ میں واپس آ سکتے ہیں نا ہی حکومت کی طرف سے جسٹس عظمت سعید کی کمیٹی کے پاس ماضی کے حکمرانوں کے اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کا پتہ لگانے اور لوٹی دولت کو واپس لانے کے لئے سفارشات کا مینڈیٹ ہے اگر یہ تحقیقاتی کمیٹی براڈ شیٹ کو ادا کی جانے والی رقم واپس لینے میں معاون ہو سکتی ہے نا ہی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں مددگار تو پھر اس کا جواز ہی کیا ہے؟ کمیٹی کو دیے گئے مینڈیٹ کے بعد قوم وزیر اعظم سے یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ براڈ شیٹ کے سربراہ نے موجودہ حکومت پر جو الزام لگایا ہے کہ اس کے نمائندوں نے دوبارہ معاہدہ طے کروانے کے عوض رشوت طلب کی کمیٹی کو ان ذمہ داران کی نشاندہی کا مینڈیٹ کیوں نہ دیا گیا؟ وزیر اعظم سے یہ سوال کیوں نہ پوچھا جائے کہ انہوںکاوے موسوی کے اس دعوے کو تحقیقاتی کمیٹی کے مینڈیٹ میں شامل کیوں نہ کیا کہ یہ پتہ لگائے کہ حکومت میں وہ کون سے لوگ ہیں جو موسوی کی طرف سے حکومت کو رضا کارانہ طور پر پاکستانیوں کی طرف سے بیرون ملک چھپائے گئے سوارب ڈالر کے بارے میں معلومات کی فراہمی کیباوجود لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کے لئے اقدامات کرنے پر آمادہ نہیں ۔ حکومت کی طرف سے تحقیقاتی کمیٹی کو دیے گئے مینڈیٹ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح کرپشن کے سانپ کے تماشے کو حکمرانی کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ عمران خان نے اپنے اقتدار کے 26ماہ مکمل کرنے کے بعد یہ انکشاف کیا تھا کہ سرکاری افسران ان کو درست معلومات فراہم نہیں کر رہے۔ وزیر اعظم کے علم میں جو معاملات آ چکے ہیں کم از کم وہ ان کے بارے میں فیصلے ہی قومی مفاد میں کریں۔ مگر بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو لوٹی ہوئی دولت وآپس قومی خزانے میں لانے سے زیادہ قومی خزانہ لوٹنے والوں کو بے نقاب کرنے میں زیادہ دلچسپی ہے تاکہ ماضی کے حکمرانوں کی لوٹ مار کی دھائی دے کر اپنے اقتدار کو طول دیا جا سکے۔ عمران خان اگر واقعی احتساب اور لوٹی دولت وآپس لانا چاہتے ہیں تو وزیر اعظم کو ماضی حکمرانوں سے پہلے حکومت میں موجود ان عناصر کا احتساب کرنا ہو گا جو احتساب کے نام پر قوم سے کھیل کھیل رہے ہیں تب ہی ماضی کے حکمرانوں کا احتساب ممکن ہو سکتا ہے۔ ورنہ وزیر اعظم کے احتساب کی حالت ضیاء الحق قاسمی کے اس شعر سے مختلف نہ ہو گی: سر کھجاتے رہے ناخن تدبیر سے ہم پھر ضرورت نہ رہی ہم کو کسی نائی کی