’’سرائیکی زبان کا قومی شاعر سچل سرمست‘‘ اس عنوان کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ خواجہ فرید (1845-1901ئ) سے پہلے جس شخصیت نے بے مثال اور لاجواب شاعری کی اُس عظیم شاعر کو دنیا سچل سرمست کے نام سے یاد کرتی ہے۔ حضرت سچل سرمست 1739ء میاں صلاح الدین کے گھر درازا شریف ضلع خیر پور میں پیدا ہوئے، آپ کا نام عبدالوہاب ہے، آپ کو بچپن سے سچ بولنے کی عادت تھی، اس لئے سچل اور سچو کے نام سے معروف ہوئے، شاعری میں بھی آپ نے اپنا یہی تخلص استعمال کیا، البتہ سندھی شاعری میں سچیڈنو بھی آیا ہے، خواجہ فرید کی طرح سچل سرمست بھی در یتیم ہیں کہ سچل سرمست ابھی 6 سال کے تھے کہ والد صاحب وفات پا گئے، یتیمی کی حالت میں آپ کی پرورش ہوئی، شاید اسی لئے آپ کے کلام میں سوزوگداز زیادہ ہے۔ خواجہ فرید اور سچل سرمست کے کلام میں فنی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ فکری ہم آہنگی بھی ہے کہ خواجہ فرید کی شاعری کا دور انگریز شاہی کے عین عروج کا دور ہے، خواجہ فرید نے بھی نہ صرف یہ کہ کسی انگریز حاکم سے ملاقات کرنا پسند نہ کیا بلکہ ’’اپنی نگری آپ وسا توں، پٹ انگریزی تھانے‘‘ کا پیغام دیا، اسی طرح سچل سرمست کا دور بھی تالپور حکمرانوں کے عین عروج کا دور تھا اور خیر پور سرائیکی بولنے والے حکمرانوں کی ریاست تھی اپنی وفات 1827ء تک وہ کبھی دربار کے نزدیک نہ گئے۔ سرائیکی زبان کا قومی شاعر کون؟ میں کوئی فیصلہ نہیں دے رہا اور نہ ہی یہ میری اوقات یا منصب ہے، البتہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خواجہ فرید کے ساتھ ساتھ ہمیں اُن تمام سرائیکی شعراء کی یاد منانی چاہئے جو خواجہ فرید سے پہلے موجود تھے، اُن کی خدمات اور اُن کی عظمت کا تذکرہ بھی ہونا چاہئے، خواجہ فرید کی طرح سچل سرمست نے سات زبانوں میں شاعری کی مگر خواجہ فرید کی طرح سچل سرمست سئیں کا بھی اصل حوالہ سرائیکی شاعری ہے، سچل سرمست سئیں کی سرائیکی کافیاں سندھ میں بہت مقبول ہیں، سندھ کی کوئی محفل ایسی نہیں جس میں سچل سرمست سئیں کا سرائیکی کلام نہ سنایا جائے، سندھ کے میدانوں، بیابانوں اور آبی گزرگاہوں میں فقیر گائیکوں کے ذریعے جو آواز صدیوں سے گونج رہی ہے وہ سچل سرمست کا سرائیکی کلام ہے۔ بہت سے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ سندھ میں رہتے ہوئے سچل سرمست نے سرائیکی میں شاعری کیوں کی؟ اصل بات یہ ہے کہ کراچی سے پشاور وادی سندھ کی اصل زبان سرائیکی ہی ہے، کہیں اس کا نام ہندکو ہے کہیں پوٹھوہاری کہیں گوجری کہیں کشمیری کہیں سندھی و پنجابی۔ ماہرین لسانیات کے مطابق یہ تمام زبانیں ہندآریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ بلوچی اور پشتو زبان کا تعلق فارسی خاندان سے ہے، یہ افغانستان اور ایران سے آئیں، اردو زبان بھی ہندآریائی زبانوں میں شمار ہوتی ہے کہ اس کا اصل ہندی زبان ہے اسے مکمل زبان اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مختلف زبانوں کا ملغوبہ ہے اور اس زبان کا اپنا ذاتی کوئی خطہ نہیں ہے۔ پاکستان میں بولی جانیوالی باقی تمام زبانیں اسی سرزمین کی زبانیں ہیں اور موجودہ پاکستان میں ان کے بولنے والوں کی تعداد 92 فیصد ہے اور یہ وہ زبانیں ہیں جنہیں بغیر کسی ترجمہ کے لوگ سمجھ سکتے ہیں، ان تمام کا اصل وہ قدیم ملتانی زبان ہے جسے آج سرائیکی کا نام دیا جاتا ہے، ماہرین لسانیات نے سرائیکی کے 36 مختلف نام گنوائے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ بقول رضا علی عابدی دریائے سندھ کے آغاز سے لیکر اختتام تک دریا کے دونوں کناروں پر جو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے اس کا نام سرائیکی ہے۔ اس لئے سندھ کے اکثر شعراء نے سرائیکی میں شاعری کی اور سرائیکی کو ہی اظہار کا وسیلہ بنایا،جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سندھ میں صرف سچل سرمست ہی نہیں بلکہ بہت سے قدیم شعراء نے سرائیکی میں شاعری کی اس کی تفصیل ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر کی کتاب ’’سرائیکی شاعری کے ہزار سال‘‘ میں موجود ہے۔ اس لئے اس میں تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ سچل سرمست نے سرائیکی میں شاعری کیوں کی۔ حضرت سچل سرمست کا عرس مبارک درازا شریف ضلع خیر پور میں رمضان شریف کے مقدس مہینے میں منایا جاتا ہے۔ پورے سندھ سے زائرین شرکت کرتے ہیں۔ سرائیکی وسیب سے بھی زائرین جاتے ہیں مگر اُن کی تعداد قدرے کم ہے۔ سرائیکی وسیب کے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں کو نہ صرف عرس مبارک کی تقریبات میں شرکت کرنی چاہئے بلکہ اپنے وسیب میں بھی سرائیکی مشاہیر کے ایام منائے جانے چاہئیں۔ اس سلسلے میں ہم نے کچھ سالوں سے نواب مظفر خان شہید، مولوی لطف علی، بابا فریدگنج شکر، علی حیدر ملتانی، حافظ جمال اللہ ملتانی، حضرت سلطان باہو کے ایام منانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے مگر اس عمل کے دائرہ کار کو وسعت دینے کی ضرورت ہے کہ زندہ قومیں اپنے مشاہیر اور اُن کے کارناموں کو ہمیشہ یاد کرتے ہیں۔حکومت پاکستان کو پاکستانی تہذیب، ثقافت اور زبانوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی مشاہیر کی خدمات کو اجاگر کرنا ہو گا۔ حضرت سچل سرمست کی شاعری جذب و مستی کی شاعری ہے، سندھ اور سرائیکی وسیب کا کوئی ایسا گلوکار نہیں جس نے سچل سرمست کا کلام نہ گایا ہو۔ حضرت سچل سرمست کے کلام میں موسیقی اور غنائیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، سندھ کے فقیروں نے اسے آسمان تک پہنچایا ہے، حضرت سچل سرمست کا تعلق بہت بڑے زمیندار خانوادے سے ہے اُن کی شاعری محبت اور انسان دوستی کی شاعری ہے، اُن کی شاعری میں تصوف، فلسفہ، مذہب و ثقافت کے سارے رنگ موجود ہیںاُن کی شاعری پڑھیں اور کسی گلوکار سے سنیں تو بار بار پڑھنے اور سننے کو جی چاہتا ہے۔ صدیوں بعد بھی اُن کی شاعری دلوں پر راج کر رہی ہے، بلا شبہ اُن کا کلام بے مثال اور لافانی کلام ہے۔ ایسے عظیم شاعر اور عظیم شخصیت کے بارے میں جاننے کو سب کا دل کرتا ہے، وہ کیا تھے؟ سچل سئیں نے سرائیکی زبان میں خود بتایا کہ ڈاڈا جان محمد حافظ، وچ درازیں دیرا دست جیں دے اصلوں آہا، سارا مقصد میرا ہادی مہدی مرشد میڈا، قادریہ ہے کامل عارف عبدالحق بہردم، نال مریداں شامل شاہ عبید اللہ اساڈا، خواجہ پیراں پیراں آل نبی اولاد علی، ہے حضرت میراں میراں آخر میں عرض کروں گا کہ جس طرح پاکستان میں بولی جانیوالی تمام زبانیں قومی زبانیں ہیں اور اردو کو سرکاری سرپرستی میں قومی رابطے کی زبان کا درجہ حاصل ہے اسی طرح پاکستان میں یہ آسودہ خاک تمام صوفی شعراء کو قومی زبانوں کے قومی شاعر کا مقام و مرتبہ حاصل ہے، میں امید کرتا ہوں کہ سچل سرمست کو سرائیکی زبان کے قومی شاعر قرار دینے کے حوالے سے میری بات کو غلط معنوں میں لینے کی بجائے انہی معنوں میں سمجھا اور پرکھا جائے گا۔