پانچ‘ چھ مئی کو بھارتی اور چینی افواج کی لداخ میں جھڑپیں ہوئیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چینی افوا ج لدّاخ میں پانچ مختلف مقامات پر آٹھ سے دس کلومیٹر اپنی سابقہ پوزیشن سے آگے بڑھیں۔ انہوں نے سینکڑوں بھارتی فوجیوں کو ماراپیٹا اورکچھ دیر تک گرفتار کیے رکھا۔ ایک سو بھارتی فوجی زخمی ہوئے۔ چند دنوں کے وقفہ سے لداخ کے ساتھ ساتھ سکّم میں بھی دونوں ملکوں کی افواج میں جھڑپیں ہوئیں۔بھارت نے الزام لگایا کہ چینی افواج لداخ میں اسکی حدود میں داخل ہوئیں جبکہ چین کے مطابق اسکے فوجیوں نے ان علاقوں میں کارروائی کی جو اسکی حدود میں شامل ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کا اپنے درمیان عارضی سرحد کے محل وقوع پر شدید اختلافات ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان تقریباً ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد ہے جسکا ایک بڑا حصہ متنازع ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس بات پر اتفاق نہیں کہ سرحد سے متصل کونسا علاقہ کس ملک کا حصہّ ہے۔ بھارت کے شمال میں مشرق کی جانب سکم ‘ بھوٹان اور تبت سے جڑی ہوئی سرحد کے بیشتر حصّے متنازعہ ہیں۔بھارت کے صوبہ ارونا چل پردیش کو چین تبت کا حصہ سمجھتا ہے۔ وادی ِکشمیر سے متصل لدّاخ کا علاقہ سابقہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔چین اسے اپنا علاقہ سمجھتا ہے جبکہ بھارت کا بھی اس پر دعوی ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان لداخ کی سرحد عارضی ہے جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کہتے ہیں جیسے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان سرحد کو لائن آف کنٹرول کہتے ہیں۔ یہ عارضی بندوبست اس وقت تک ہے جب تک متنازع علاقہ کا کوئی حتمی تصفیہ نہیں ہوجاتا۔ 1959ء میں چین کے وزیراعظم چوائن لائی نے بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو خط لکھا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو لائن آف کنٹرول ہے اسے امن کی سرحد قرار دے دیں لیکن نہرو نے یہ تجویز مسترد کردی تھی۔ انیس سو باسٹھ میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی جس میں بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت جب جنگ بند ہوئی اور دونوں فوجوں کی جو پوزیشن تھی اس کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول تسلیم کیا گیا۔ چینی اسی سرحد کواصل عارضی سرحد قرار دیتے ہیں۔ اس معاملہ میںدشواری یہ ہوئی کہ باسٹھ کی جنگ کے بعد چینی افواج لداخ میں پندرہ بیس کلومیٹر پیچھے ہٹ گئی تھیں۔ یہ بیس کلومیٹر کا علاقہ ایک طرح سے نومین لینڈ ہے جس پر نہ بھارت کا قبضہ رہا نہ چین کا۔ حالیہ جھڑپوں سے پہلے چینی فوجی تو سرحد پر پہرہ بھی نہیں دیتے تھے۔ انیس سو ترانوے میں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی معاملات پر ایک سمجھوتہ ہوا تھا جس کے تحت دونوں ملکوں نے سرحدی امور پر اختلافات کے باوجود ایک عارضی سرحد یا لائن آف ایکچوئل کنٹرول کوباقاعدہ تسلیم کیا۔تاہم اس معاہدہ کو ہوئے پانچ برس گزرے تھے کہ بھارت نے ایٹم بم کے تجرباتی دھماکے کردیے جس سے چین کے روّیہ میں تبدیلی آگئی۔وہ بھارت کے عزائم کو شک کی نظر سے دیکھنے لگا۔ گاہے بگاہے دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی پیدا ہونے لگی۔دو ہزار تیرہ میں دونوں ملکوں نے سرحدی امور پر کشیدگی کم کرنے کی غرض سے ایک اور معاہدہ کیا۔ اس کے تحت دونوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ اگر ایک ملک کا فوجی لائن آف کنٹرول پار کرکے دوسرے ملک کے زیر قبضہ علاقہ میں داخل ہوجائے تو اسکا تعاقب نہیںکیا جائے گا۔ گزشہ دس برسوں میں بھارت نے امریکہ کے ساتھ اپنا اتحاد زیادہ گہرا اور مضبوط کیا ہے اس وقت سے اسکی خارجہ پالیسی میں زیادہ جارحانہ پن آگیا ہے۔ بھارتی افواج نے لداخ کی اس بیس کلومیٹر کی پٹی میں فوجی تعمیرات کرنی شروع کردیں۔جب نریندرا مودی کی حکومت بنی تو بھارتی افواج کی لداخ میں سرگرمیاں اور تیزہوگئیں۔ بھارت نے وہاں چار ڈویژن فوج تعینات کی ہوئی ہے۔چین نے بھی اپنی جانب کے لداخ میں سڑکیں بنائی ہوئی ہیں َ۔ فوجی تنصیبات قائم کی ہوئی ہیں۔ معمولی معاملات پردونوں ملکوں کی افواج کے درمیان ہلکی پھلکی جھڑپ ہوجاتی تھی۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں یہ جھڑپیں زیادہ ہوگئی ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ بھارت لائن آف کنٹرول میں یکطرفہ طور پر تبدیلی کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔ چین نہیں چاہتا کہ بیس کلومیٹر کی اس پٹی میںجو اس نے خالی کی تھی بھارت اپنی فوجی تنصیبات بنائے۔ وہ چاہتا ہے کہ بھارتی افواج یہ جگہ خالی کرکے اس مقام پر واپس جائیں جہاں وہ انیس سو باسٹھ میں تھیں۔ اسی لیے حالیہ دنوں میں چینی افواج نے بھارتی فوجیوں کے خلاف سخت کارروائی کی۔ چین‘ بھارت کشیدگی کا تعلق گزشتہ سال اگست میںبھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں کشمیر کی خصو صی آئینی حیثیت تبدیل کرنے سے بھی ہے۔اس اقدام کے ذریعے بھارت نے لداخ کو اپنی ریاست (یونین) کا باقاعدہ علاقہ قرار دیاتو چین نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ چین کا موقف تھا کہ لداخ دونوں ملکوں کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے۔اگست کے بعد بھارت نے لداخ اور جموں‘ کشمیر کو اپنی مملکت کا حصہ دکھاتے ہوئے نئے نقشے جاری کیے۔ بھارتی سیاستدانوں نے ڈینگیں مارنی شروع کیں کہ اب وہ پاکستان کے زیر انتظام گلگت‘ بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے بھی چھین لے گا۔ چین نے لداخ میں سخت روّیہ اختیار کرکے بھارت کو پیغام دیا ہے کہ وہ لداخ کی حیثیت پر یکطرفہ فیصلہ نہیں کرسکتا ورنہ اسے چین کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا‘ نوبت جنگ تک بھی پہنچ ٓسکتی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اس خطہ میں تزویراتی (اسٹریٹجک) سکون کو تہہ و بالا کیا ہے۔ بھارت کے عزائم اور فوجی سرگرمیوں میں اضافہ چین اور پاکستان دونوں کی علاقائی سلامتی کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارت کے اندر اتنی طاقت نہیں کہ وہ اکیلا چین سے جنگ کرے۔ اگر کشیدگی برقرار رہی تو جلد ہی صلح کی کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرے گا۔ تاہم اگر امریکہ نے دلی سرکار کو تھپکی دی تو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ جائے گی۔ بھارت اس خطہ میں امریکہ کا اہم اتحادی ہے اور اسکے عزائم میں اسکا جونئیر پارٹنر۔لداخ کے علاقہ میں تناؤ بڑھا تو یہ مقامی جھگڑا نہیں رہے گا بلکہ عالمی سیاست سے جڑ جائے گا۔